Maktaba Wahhabi

85 - 95
اطلاق کیا، اُنہوں نے اس کی توبہ قبول کرنے کی بات بھی کی ۔ کیونکہ وہ ایسی بات کرنے میں حق بجانب تھے لیکن اُنہوں نے بھی یہ واضح کر دیا کہ اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اسے قتل کیا جائے گا۔ البتہ ان سے تسامح ہوا کہ اُنہوں نے اسے ردۃ عامہ سمجھا حالانکہ امام اعظم کے مذہب کے مطابق یہ ردۃ خاصہ تھی جس کا حکم زندیق کی طرح ہے اور اسے ہرحال میں قتل کیا جائے گا اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ امام شامی رحمۃ اللہ علیہ کے چند تناقضات چنانچہ امام ابن عابدین شامی سے پہلے درجن سے زائد جید فقہائے احناف نے، جن کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے، ردۃ عامہ اور ردۃ خاصہ میں فرق کرتے ہوئے امام اعظم کے اصل موقف کو اجاگر کیا اور تقریباً سبھی نے یہ تصریح کی کہ یہی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے۔ ہم نے جو فقہا ے احناف کی عبارتیں اوپر نقل کی ہیں، ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا کو حد ماننے اور گستاخ معاہد کا نقض عہد تسلیم کرنے کا موقف متقدمین فقہا ء احناف سے چلا آرہا ہے جیسا کہ امام محمد بن ناطفی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص حنفی رحمۃ اللہ علیہ بلکہ خود امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت سے واضح ہو رہا ہے: ذکره (الإمام محمد) في السیر الکبیر فیدل على جواز قتل الذمي المنهی عن قتله بعقد الذمة إذا أعلن بالشتم أیضا، و استدل لذلك في شرح السیر الکبیر بعدة أحادیث، منها حدیث أبي إسحٰق الهمداني قال: جاء رجل إلىٰ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وقال سمعت امرأة من يهود وهی تشتمك والله یا رسول الله إنها لمحسنة إلي فقتلتها فأهدرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم دمها [1] ’’امام محمد نے ’السیر الکبیر‘ میں لکھا کہ اس میں دلالت ہے کہ ذمی کو بوجہ عہد ذمہ قتل سے امان مل چکی تھی جب وہ اعلانیہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و تنقیص کا مرتکب ہو تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اس پر شرح السیر الکبیر میں کئی احادیث سے ذمی کے قتل پر استدلال کیا ۔ ان میں ایک ابو اسحٰق ہمدانی کی روایت ہے ،ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک یہودی عورت میری محسنہ تھی لیکن وہ آپ کو سبّ وشتم کرتی تھی، میں نے اسے قتل کردیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کو ضائع
Flag Counter