Maktaba Wahhabi

84 - 95
ان کی ہر قسم کی تنقیص و اہانت کفر ہے ، اس کا قائل اسے جائز سمجھ کر گستاخی کرے یا اسے حرام سمجھے ،قصدا گستاخی کرے یا بلا قصد ،ہر طرح اس پر کفر کا فتویٰ ہے۔ شان نبوت کی گستاخی میں لاعلمی اور جہالت کا عذر نہیں سنا جائے گا،سبقت لسانی کا عذر بھی قابل قبول نہیں، اس لیے کہ اس کی عقل فطرتِ سلیمہ پر ہے ۔‘‘ [1] مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ احناف فقہا کی اکثریت گستاخ رسول کو خاص مرتد اور زندیق سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے یہ فقہاےکرام نہ تو ایسے ملعون کو معاف کرنے اور نہ ہی اسے قتل سے کم سزا دینے کا موقف رکھتے ہیں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جناب عمار خاں ناصر نے کون سے جمہور فقہاے احناف کی یہ رائے لکھی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص وقتی کیفیت کے ساتھ اہانتِ رسول کا ارتکاب کر ے اور پھراس پر اصرار کی بجائے معذرت کا راستہ اختیار کرے تو اس پر در گزر کرنا اور اسے ہلکی سزا دینا مناسب ہے اور یہ کہ اگر توہین رسالت کا عمل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے لئے دیدہ و دانستہ کیا جائے اور وہ ایک مستقل معمول کی صورت اختیار کرلے تو عدالت کو قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی حاصل ہے۔‘‘ ان کی اس تحریر کی ایک ایک سطر میں کئی مغالطے پنہاں ہیں ۔ قتل سے کم تر سزا کہاں سے ثابت ہے ؟ موصوف کا یہ کہنا کہ عدالت اسے قتل تک کی سزادے سکتی ہے، بھی نہایت مغالطہ انگیز ہے، اس کی سزا قتل ہونے پر تو اُمت کا اجماع ہے۔[2] پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہر ی حیات مبارکہ میں گستاخِ رسول کے بارے میں دوقسم کے رد عمل دکھائی دیتے ہیں یا تو اس جرم پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا ئے موت دی یا پھر مجرم کو معاف کر دیا، موت سے کم تر سزا دینے پر موصوف کے پاس اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی قولی یا فعلی حکم ہو تو اسے ضرور سامنے لائیں۔ ہاں معافی دینے کی مثالیں موجود ہیں اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار تھا کہ وہ کسی مجرم کو سزا دیں یا معاف فرمائیں، اسی طرح فقہائے کرام میں سے کسی ایک نے بھی مسلمان گستاخ رسول کو قتل کرنے سے کم ترسزا کا موقف پیش نہیں کیا ۔ ہاں ان چند فقہاے احناف نے جنہوں نے گستاخی رسول کے مرتکب پر ردۃ عامہ کا
Flag Counter