وجہ بھی بیان فرما دی ہے کہ یہ مذہب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ طوالت کے خوف سے تفصیلی عبارات کی بجائے ان میں سے بعض کے محض تذکرہ پر اکتفاکرتے ہیں۔مثلاً علامہ حسن شرنبلائی و علامہ یوسف اخی اور علامہ ابو عبد اللہ رحمتہ اللہ علیہم نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ گستاخ رسول کا حکم عام مرتد کی طرح نہیں کیونکہ اس کی توبہ کسی صورت میں بھی قبول نہیں کی جائے گی ۔ حنفی مفسرین کی تصریحات اَب دو جلیل القدر حنفی مفسرین کے حوالہ جات بھی ملاحظہ فرمالیں : 1.قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَن آذی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بطعن في شخصه أو دینه أو نسبه أو صفته من صفاته أو بوجه من وجوه الشین فیه صراحه أو کناية أو تعریضًا أو إشارة کفر ولعنة الله في الدنیا والآخرۃ وأعد له عذاب جهنم، وهل یقبل توبته؟ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت،دین،نسب یا حضورِ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت پر طعن کرنا اور صراحتاً یا کنایۃً یا اشارۃ ً یا بطورِ تعریض آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نکتہ چینی کرنا اور عیب نکالنا کفر ہے۔ ایسے شخص پر دنیا و آخرت میں اللہ کی لعنت اور اس کے لیے عذابِ جہنم ہے، کیا اس کی توبہ قبول ہو گی ؟ [1] اس کے بعد اُنہوں نے ابن الہمام اور امام خطابی کے اقوال نقل کر کے تصریح کی ہے کہ اسے حداً قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ مقبول نہیں ہے۔ 2. علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : واعلم أنه قد اجتمعت الأمة على أن الاستخفاف بنبینا وبأی نبی کان من الأنبیاء، کفر سواء فعله فاعل ذلك استحلالا أم فعله معتقدًا بحرمته لیس بین العلماء خلاف في ذلك والقصد للسب وعدم القصد سواء إذ لایعذر أحد في الکفر بالجهالة ولا بدعوی زلل اللسان إذا کان عقله في فطرته سلیما ’’تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کوئی اور نبی علیہ السلام ہوں، |