Maktaba Wahhabi

82 - 95
ہے اور امام اعظم ، ثوری ، اہل کوفہ ،ا مام مالک اور ان کے اصحاب کا بھی یہی موقف ہے ۔ ‘‘ 10. امام بد ر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ ( ت۸۵۵ھ)فرماتے ہیں : ولکن أنا معه في جواز قتل السابّ مطلقًا [1] ’’تاہم میں مطلقاً ہر شاتم رسول کو قتل کرنے کے حق میں ہوں ۔‘‘ اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’توہین رسالت کی وجہ سے مومن کا ایمان نہیں رہتا تو ذمی کے لئے امان کیسے باقی رہ جائے گی؟کیونکہ مسلمان جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے تو کافر ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر حاکم بھی ایسا کرے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے گا جوویسے ہی مجرم اور دین کا دشمن ہو یعنی ذمی اگر وہ توہین کرے تو اسے کیسے چھوڑ دیا جائے گا؟ ‘‘[2] 11. امام عبد اللہ بن محمد سلیمان حنفی رحمۃ اللہ علیہ (ت۱۰۷۸ھ ) فرماتے ہیں : إذا سبه صلی اللہ علیہ وسلم أو واحدا من الأنبیاء مسلم ولا سکران فلا توبة له أصلا لا تنجیه کالزندیق ومن شك في عذابه وکفره فقد کفر [3] ’’…جو مسلمان کہلا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نبی کی شان میں گستاخی کرے، اگرچہ حالت ِنشہ میں ہو ، تو زندیق کی طرح اس کی توبہ کو بھی قبول نہیں کیا جائے گا جو اس کے عذاب اورکفر میں شک کرے وہ خود بھی کافر ہے ۔ ‘‘ 12.شاہ عنایت قادری ( ت۱۱۴۸ھ ) فرماتے ہیں : ’’گستاخِ رسول کی سزا کے بارے میں جو ہم تک معتبر روایات پہنچی ہیں، وہ فتاویٰ ذخیرہ میں ہیں۔ ان میں یہ ہے کہ گستاخِ رسول کوئی بھی ہو خواہ مسلمان ہو یا ذمی اس کی شرعی حد یہ ہے کہ اسے قتل کیا جائے گا اور اس کے لئے توبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اُنہوں نے اسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب قرار دیا ہے ۔ وہ فر ماتے ہیں : هو مذهب أبي بکر والإمام الأعظم [4] ’’یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے ۔ ‘‘ ان کے علاوہ بھی کئی احناف فقہا نے یہی مذہب اختیار کیاہے اور اسے اختیار کرنے کی
Flag Counter