محاربہ کی سزا ہی نظر آتی ہے۔ حنفیت کے نام پر جاوید احمد غامدی کی یہ ہم نوائی اور ان کے ملحدانہ افکار کے لئے حنفیت سے دلائل نکال کر کے پیش کرنا انتہائی افسوس ناک ہے۔ اگر علماے احناف میں سے بعض کا موقف قدرے مختلف بھی ہے تو اس کی توجیہ وتحلیل اور مقصد وہدف اس سے بالکل مختلف ہے جو غامدی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں اُمید ِواثق ہے کہ بعض ظاہر ی یا جزوی اشتراکات سے بالغ نظر علماے احناف قطعاً مغالطہ نہیں کھائیں گے بلکہ مقصد ونتیجہ پر ہی نظر رکھیں گے۔ آخر میں مضمون نگار سے ہمارا سوال ہے کہ 1.اگر توہین رسالت کی سزا ے قتل شریعت ِاسلامیہ میں مشہور و مقرر ہے 2. اگر فقہ حنفی میں پایا جانے والا اختلاف بھی ذمی کے بارے میں ہی ہے، جبکہ ذمیوں کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے 3. اگر صدرِ اوّل سے آج تک اُمت اس سزا کے بارے میں متحد ومتفق چلی آرہی ہے 4. محاربہ کو کبھی کسی نے اس کی جرم کی اساس کے طورپر پیش نہیں کیا اور کسی نے سزاے موت کو آپ کی طرح اس جرم کی آخری حد کے طورپر ’گوارا ‘نہیں کیا 5. اُمت ِاسلامیہ ارتداد کی سزا کو بھی مانتی ہے اور اجماع کی حجیت کو بھی توپھر اس امت ِمحمدیہ کے سامنے وہ کس بنا پر اِن ترامیم کو تجویز کررہے ہیں جس سے مذکورہ بالا سب باتوں کی نفی ہوتی ہے۔ کیا اس طرح وہ اپنے آپ کو مغالطہ دے رہے ہیں ، یا اُمت کے باشعور ، صاحب ِایمان اور مسند علم کے حاملین ووارثین کو!؟ علماے اسلام کو چاہئے کہ پیش کی جانے والی ترامیم کی نوعیت اور رجحان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اُمت ِاسلامیہ کے اجماعی موقف کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔جو قانون 25 برس قبل پاکستان کے تمام علماے کرام کے اتفاق واتحاد کے ساتھ توہین رسالت کے امتناع کے لئے بنایا گیا تھا، وہ کتاب وسنت اور فقہاے اُمت کی موقف کی عین ترجمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی حفاظت اور اس پر عمل درآمد کرانے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے کی ہمت دے ۔آمین! |