Maktaba Wahhabi

70 - 95
ان کے اس تعارف پر حنفی/ دیوبندی حلقے میں بہت لے دی ہوچکی ہے اور موصوف نے ابھی تک کوئی تشفی بخش جواب یا پیش قدمی نہیں کی۔ جو صاحب اس سلسلہ مضامین سے مزید واقفیت حاصل کرنے کے متمنی ہوں، وہ نوشہر ہ کے ماہنامہ القاسم کے شمارہ جون، جولائی اور اگست 2009ء میں چھپنے والی مراسلت کا مطالعہ کریں۔ 3. نیز اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ کے باضابطہ ترجمان ماہنامہ ’وفاق المدارس‘ ملتان 2009ء میں ان کے رجحانات پر شائع ہونے والا مضمون بھی بصیرت افروز ہے۔ 4. توہین رسالت کے امتناع کے قانون پر مضمون نگار کا یہ موقف نیا نہیں بلکہ وہ ماضی میں بھی اس قانون پر اپنے بے اعتمادی کا اظہار ان الفاظ میں کرچکے ہیں: ’’اس کےعلاوہ عملاً جن قوانین مثلاً قادیانیوں کے خلاف امتناعی قوانین یا توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا پر عمل درآمد پر اصرار کیا گیا، ان کے پس منظر میں زیادہ ترعوامی سطح پر پائے جانے والے جذبات کارفرماتھے جبکہ حقیقی معاشرتی اصلاح کا پہلو اُن میں نمایاں نہ تھا۔‘‘ [1] مذکورہ بالا معروضات سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ مجلہ الشریعہ میں حنفی موقف کی تحقیق کے نام پر جو مضامین شائع کئے گئے ہیں اور اس کے بعد مدیر مجلہ نے جو ترامیم تجویز کی ہیں، ان کا تعلق فقہ حنفی کی بجائے جناب جاوید احمد غامدی کےافکار سے ہے۔ فقہاے حنفیہ کا موقف اس باب میں بالکل واضح ہے کہ وہ توہین رسالت کی سزاے قتل ہونے کے قائل وداعی ہیں اور شریعت ِاسلامیہ میں اس کی مقررہ سزا کے معترف ہیں۔ حنفی علما نے بھی اس مسئلہ کے بارے میں اُمت کے اجماعی موقف کو ہی اختیار کیا ہے۔ اُنہوں نے سزاے موت کا انکار کرتے ہوئے اس جرم کو محاربہ کے تحت لانے کا موقف بالکل نہیں اپنایا۔ جبکہ مضمون نگار فقہاے اُمت کے برعکس اس کو اس بنا پر حد قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ غامدی صاحب کی طرح حد ارتداد کے اس دور میں ناقابل عمل ہونے کے قائل ہیں، اسی بناپر اُنہیں کتاب وسنت میں اس کی کوئی اساس نظر نہیں آتی اور اس کی کوئی حد دکھائی دینے کی بجائے محض
Flag Counter