غیرت دلانے کی جو کوشش کی ہے، اس کے تناظر میں الشریعہ کے جون کے شمارے میں ان مضامین کی معنویت بالکل واضح ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ فقہ حنفی میں تو ذمی کے حوالے سے اُمت ِمسلمہ سے معمولی اختلاف پایا جاتا ہے جبکہ غامدی حلقہ نہ تو ذمی کا قائل ہے اور نہ ارتداد کا، نہ اجماع کا او رنہ ہی رجم کا،اس کے باوجود حنفی موقف میں ذمی کے بحث کو اُچھالنا صرف اضطراب کو پیدا کرنے کے لئے ہے تاکہ اس کے بعد تاویل وتوجیہ کا راستہ کھولا جاسکے۔ ان فکری رجحانات کی تصدیق 1.مضمون نگار کے یہ فکری رجحانات چھپے ہوئے نہیں بلکہ مجلہ ’اجتہاد‘ اسلام آباد کے شمارہ نمبر5 میں شائع شدہ ان کے مضمون پر جامعہ ابوہریرہ کے مہتمم اور مدیر ماہنامہ القاسم مولانا عبد القیوم حقانی نے اپنی فکر مندی کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے: ’’اب کے بار جو مقالہ پڑھا تو رونگٹے کھڑے ہوگئے اور یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا واقعتاً بھی عمار خاں ناصر جیسے ذی علم ، ذی استعداد اور صاحب ِفضل وکمال ایسی بات لکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ بات کسی پرویزی،کسی غامدی، کسی قادیانی ، کسی بے دین کالم نویس نے لکھی ہوتی تو کبھی کڑھن نہ ہوتی اور نہ اس سلسلہ میں کچھ لکھنے کی ہمت ہوتی کہ برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس کے اندرہوتا ہے۔ میرے خیال میں آں عزیز کی تحریری کاوشوں سے ملحدوں، دہریوں اور نفاذ اسلام کی جدوجہد کے خلاف کام کرنے والے دین دشمنوں بالخصوص قادیانیوں کی مذموم تحریکات کو تقویت ملتی بلکہ ان کی ترجمانی ہوتی ہے۔‘‘ [1] 2. واضح رہے کہ جناب مضمون نگار کا ایسا ہی تعارف ان کےوالد ِگرامی مولانا زاہد الراشدی اس سے قبل ان الفاظ میں کرا چکے ہیں کہ ’’جاوید احمد غامدی سے ان کا شاگردی کا تعلق ہے ، اُن کے ادارے سے ان کی جزوی وابستگی ہے اور ان کے بعض افکار سے وہ متاثر بھی ہے۔‘‘ [2] |