3. مضمون نگار نے شتم رسول کے مسئلے میں سزاے موت سے انکار کیا ہے، کیوں؟ اس کی اساس غامدیت کے اُصولوں میں یوں بیان ہوئی ہے : ’’موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔‘‘ [1] 4. ایک اور مقام پر ارتداد کی سزا کا انکار کرتے ہوئے جناب غامدی لکھتے ہیں: ’’ہمارے فقہا کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے قرآن وسنت کے باہمی ربط سے اس حدیث کا مدعا سمجھنے کی بجائے اسے عام ٹھہرا کرہر مرتد کی سزا موت قرار دی اور اس طرح اسلام کے حدود وتعزیرات میں ایک ایسی سزا کا اضافہ کردیا جس کا وجود ہی شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہے۔‘‘[2] 5. جہاں تک مضمون نگار کی تجویز کردہ اس سزا کا تعلق ہے کہ ’’شاتم رسول کو شہری حقوق سے محروم کردیا جائے۔‘‘ تو یہ سزا بھی فرقہ غامدیہ کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی کی ہی تجویز کردہ ہے۔ اس سے بھی موصوف کے فکری ماخذوں کا پتہ چلتا ہے، مولانا اپنی تفسیر میں آیت ﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِه﴾ کی تشریح میں لکھتے ہیں : ’’ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ جو شخص مرتد ہوجاتا ہے، وہ اسلامی ریاست میں جملہ شہری حقوق سے محروم ہوجاتا ہے۔‘‘ [3] 6. ماضی میں بھی مضمون نگار کے اکثر مضامین مجلّہ اشراق کی زینت بنتے رہے ہیں، بعد ازاں وہ مجلہ الشریعہ میں شائع ہوئے ہیں اور توہین رسالت کا حالیہ مسئلہ بھی مئی جون جولائی کے جن تین مہینوں میں ماہنامہ اشراق میں بحث مباحثہ کا موضوع بنایا گیا ہے، عین مارچ ، اپریل اور جون 2011ء کے مہینوں میں مجلہ الشریعہ نے بھی اس پر چھ عدد مضامین شائع کئے ہیں۔ دونوں مجلات میں ایام کی یہ مناسبت بھی مشترکہ اہداف کی غمازی کررہی ہے، بالخصوص جاوید غامدی نے اپنی تحریر کے آخر میں علماے احناف کو |