محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ریاست پاکستان میں احناف کی اکثریت ہے لیکن باعث ِتعجب ہے کہ قانون سازی کے موقع پر ان کی رائے یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قانون قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی خلاف ہے اور فقہاے احناف کی رائے کے بھی خلاف ہے، اسے لازما ًتبدیل ہونا چاہئے۔یہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ [1] 2. غامدی صاحب کے موقف کی نزاکتیں ان کی زیر نظر تحریر میں ملاحظہ فرمائیں: ’’فقہا یہ کہتے ہیں کہ مسلمان اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرے گا تو مرتد ہوجائے گا، اور مرتد کی سزا قتل ہے... فقہا کے نزدیک سزا کی بنیاد یہی ہے لیکن قرآن وحدیث پر تدبر سے واضح ہوجاتا ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد یہ بنیاد ہمیشہ کے لئے ختم ہوچکی ہے۔ ہم نے اپنی کتابوں میزان او ربرہان میں پوری طرح مبرہن کردیا کہ ارتداد کی سزا انہی لوگوں کے ساتھ خاص تھی جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے براہِ راست اتمام حجت کیا اور آپ پر ایمان لانےکے بعد وہ کفر کی طرف پلٹ گئے... منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کرکے انہیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کرسکتا ہے او رنہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کرسکتا ہے۔مسلمان ریاستوں کے غیرمسلم شہری نہ اصلاً مباح الدم ہیں ، نہ ذمی ہیں اور نہ کسی امان کے تحت رہ رہے ہیں جس کے اُٹھ جانے کی صورت میں ان کے بارے میں قتل کا حکم دیا جائے۔ یہ سب چیزیں قصہ ماضی ہیں۔‘‘ [2] جاوید غامدی کی ان تحریروں میں کیا کیا گوہر افشانیاں کی گئی ہیں اور دونوں موقفوں میں کیا کیا مماثلتیں نکلتی ہیں، اس کا جائزہ ہم ذی بصیرت قارئین کی ذہانت کے سپرد کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ |