کرتے ہیں، جبکہ نامور حنفی فقہا کا موقف تو ایک طرف رہا، موصوف تو امتِ اسلامیہ کے اجماعی موقف کے بھی قائل نہیں،جیسا کہ اس قبل حدود قوانین کے موضوع پر اپنی تصنیف کے ردّ میں جامعہ مدنیہ لاہور کے مفتی ڈاکٹر عبد الواحد حفظہ اللہ کا جواب الجوب دیتے ہوئے آپ صراحت کے ساتھ لکھ چکے ہیں : ’’یہ حقیقت اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ علمی وفقہی تعبیرات کے دائرے میں اجماع کا تصور ایک علمی افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔‘‘ [1] اجماع جیسی مسلّمہ دلیل شرعی کے بارے میں اس موقف کے بعد اُنہیں فقہ حنفی کا حوالہ دے کر، اس کی بنا پر اپنے موقف کو قائم کرنے کا تاثر دینے سے اخلاقًا گریز کرنا چاہئے۔ مضمون نگار کی غامدیّت نوازی اس بنا پر حنفی موقف کی حقیقت جو کچھ بھی ہو، اسے صرف مطلب براری کے لئے ہی پیش کرنا مقصود ہے۔مضمون نگار کا موقف اس ضمن میں وہی ہے جو جاوید احمد غامدی نے اپنے متعدد مضامین میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ جاوید غامدی کے یہ مضامین ماہنامہ اشراق کے مئی ،جون اور جولائی 2011ء کے تین شماروں میں شائع ہو چکے ہیں۔ جو صاحب ِعلم بھی ان مضامین کو پڑھیں گے تو وہ ممدوح مضمون نگار کی تحقیق اور ان مضامین میں پائی جانے والی مماثلت پر حیران ہوجائیں گے ۔ 1.اختصار کے پیش نظر ہم صرف ان کے ایک دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں : ’’توہین رسالت کی سزا کا جو قانون ریاستِ پاکستان میں نافذ ہے، اس کا کوئی ماخذ قرآن وحدیث میں تلاش نہیں کیا جاسکتا... آیت میں یحاربون کا لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛ فساد انگیزی پر اُتر آئے؛ دعوت وتبلیغ ،تلقین ونصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے بلکہ مقابلے کے لئے کھڑا ہوجائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کردے اور اس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اسے |