Maktaba Wahhabi

65 - 95
لذلك الأسقف، وقال: الآن عز الإسلام، إن أطفالا صغارًا شُتم نبيهم، فغضبوا له وانتصروا ’’اہالیانِ بحرین کے بچے باہر نکل کر صوالجہ (ہاکی جیسا ) کھیل رہے تھے اور بحرین کا بڑا پادری وہاں بیٹھا ہواتھا۔ اچانک گینداس کے سینے پر جالگا تو اس نے اسےپکڑ لیا، بچے اس سے گیند مانگنے لگے، اس نے دینے سے انکار کردیا اور نبی کریم کو بھی گالی دی۔ سارے بچے مل کر اپنی کھیل کی لاٹھیوں کے ساتھ اس پر پل پڑے اور اس کو اس وقت زدو کوب کرتے رہے حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ یہ قضیہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی طرف بھیجا گیا تو بخدا آپ فتح یا مال غنیمت سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے بچوں کے اس بشپ کو قتل کرنے پر مسرور ہوئے۔ اور آپ نے کہا کہ آج اللہ نے اسلام کو عزت دے دی ہے کہ بچوں نے اپنے نبی کی گستاخی پرغیض وغضب کا مظاہرہ کیا اور اُنہوں نے انتقام لے لیا۔‘‘ [1] v. ایسے ہی اُصولی فرامین سیدنا ابن عباس، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ بن عبد العزیز وغیرہ سے بھی مروی ہیں، جن کا تذکرہ باعث ِطوالت ہوگا۔ 5. یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ شتم رسول یا دیگر جرائم کے ساتھ محاربہ کی سزا بھی بعض اوقات شامل ہوسکتی ہے جبکہ جرم میں سنگینی اور شدت وتکرار اس قدر زیادہ ہو کہ فساد فی الارض واقع ہو لیکن شتم رسول کی ہرصورت کو محاربہ قرار دینا یا محاربہ سے کمتر صورتوں میں شتم رسول کی سزا ہی رفع کردینا بہرحال غلطی ہے۔ مذکورہ بالا واضح دلائل اور جلیل القدر فقہا وعلما کے صریح فرامین کو نظرانداز کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات تو سبھی فقہی مکاتب ِفکر کے ہاں متفق علیہ ہے کہ شتم رسول کی سزا کا مسئلہ بنیادی طورپر ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور قرآن وسنت میں اس جرم پر ’حد‘ کے طریقے پر کوئی مخصوص سزا مقرر نہیں کی گئی۔ ‘‘ [2] یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ مضمون نگار اپنے موقف کی تائید کے لئے حنفی فقہ کو پیش
Flag Counter