Maktaba Wahhabi

63 - 95
اُتارا [1]گیا ہے۔ اس لئے اس کو فساد فی الارض میں شامل کرکے محاربہ کا دعوٰی کرنا بالکل فضول سی بات ہے۔ 3. اس ضمن میں ایک مشہور واقعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جس میں اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے والے منافق کی گستاخی کی سزا ، اس کو قتل کرکے دی تھی: لا تعجلا حتى أخرج إليكما فدخل فاشتمل على السيف وخرج فقتل المنافق ثم قال: هٰكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله. فأتى جبريل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال: إن عمر رضی اللہ عنہ قد قتل الرجل وفرق الله بين الحق والباطل على لسان عمر. فسُمِّي الفاروق [2] ’’میرے آنے سے قبل نکل مت جانا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اور منافق کو قتل کردیا، پھر فرمایا: اس کے بارے میرا فیصلہ یہ ہے جو رسول اللہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر حضرت جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سےحق اور باطل کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس بنا پر عمر رضی اللہ عنہ کا نام ’فاروق‘ رکھ دیا گیا۔‘‘ یہ واقعہ ابن لہیعہ کے ضعیف طریق کے علاوہ ابو مغیرہ اور شعیب بن شعیب کے صحیح طریق سے بھی مروی ہے ،[3] اس بنا پر حافظ ابن کثیر اور امام احمد بن حنبل وغیرہ نے اسے قابل اعتبار قرار دیا ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب میں اس واقعہ کے تذکرہ کے بعد لکھتے ہیں: و هٰذا المرسل له شاهد من وجه آخر يصلح للاعتبار[4] ’’دیگر شواہد کی بنا پر اس مرسل روایت پر اعتبار کرنا درست ہے۔‘‘ دیکھئے کہ اس واقعہ میں بھی شان نبوت میں گستاخی کی سزا کے لئے تکرار کی کوئی شرط پیش نہیں کی گئی اور اس سے مزعومہ موقف کی بخوبی تردید ہوتی ہے۔
Flag Counter