وانتشار دکھا کر پورے مسئلہ کو ہی تبدیل کردینے کی کوشش کی ہے۔ جب ان کے ہاں ایک استنثائی موقف، اصل مرکزی مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے تو اس نتیجہ تک پہنچنے کے لئے احادیث کی دلالت ختم کرنا اور ان کی توجیہ وتاویل کئے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔چنانچہ ان کے نزدیک شتم رسول بذاتِ خود کوئی جرم نہیں بلکہ اس جرم کی سزا معاشرے میں انتشار وافتراق اور سماجی مصلحت کے پیش نظر ہی دی جائے ۔ اس لئے اُنہو ں نے اس کو محاربہ کی قبیل سے قرار دیا ہے جو دراصل فساد فی الارض کی روک تھام کے لئے ہوتا ہے۔ اس کو محاربہ قرار دینے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس طرح یہ جرم حدود سے نکل گیا کیونکہ محاربہ میں جرم کی نوعیت وکیفیت کے پیش نظر ایک سے زائدسزائیں موجود ہیں اور ایک مقررہ سزا نہ ہونے کی بنا پر بعض فقہا کے نزدیک محاربہ حد کے ذیل میں نہیں آتا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ محاربہ کی سزا کے ضمن میں محض جلاوطنی جیسی بے ضرر سزا بھی شامل ہے، جسے ان کے الفاظ میں ’شہری حقوق سے محرومی‘ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ محاربہ کی صورت میں آسان سزائیں بھی ممکن ہیں ۔ تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ محاربہ کے تحت آنے کی بنا پر اس میں قرآنِ کریم سے توبہ کی گنجائش میسر آگئی۔ حالانکہ یاد رہنا چاہئے کہ محاربہ میں توبہ کی گنجائش قرآنی الفاظ کی رو سے مجرم کے عدالتی گرفت میں آنے سے پہلے پہل ہے، تاہم اس کے باوجود وہ اہانت ِرسول کو محاربہ قرار دے کر، بعد از گرفت بھی اس کو توبہ کا موقع دینے کی تجویز دے رہے ہیں جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ 1.آغاز میں مذکور احادیث ِرسول ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور علماے امت کی متعدد تصریحات میں کہیں بھی اس جرم کی سزا کے لئے اُصولی طورتکرار وفساد کی شرط (ماسوائے ذمی) عائد نہیں کی گئی اور یہی بات سیدنا ابوبکر کے مذکورہ اُصولی واقعہ سے ثابت ہوتی ہے۔ 2. احادیث ِرسول میں توہین رسالت کے ضمن میں آنے والے واقعات میں ، سزا دیتے وقت کبھی کسی حدیث میں محاربہ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ نہ ہی پیچھے مذکور اقوال میں اسے محاربہ قرار دیا گیا ہے۔ محاربہ کی سزائیں تو ٹکڑے کردیا جانا یا سولی دیا جانا، یا مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کاٹ دینا یا جلاوطن کرنا ہیں۔ ظاہر ہے کہ توہین رسالت کے درجن سے زائد واقعات میں کہیں بھی ان میں سے کوئی سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کو موت کے گھاٹ |