Maktaba Wahhabi

61 - 95
میں بعض دوسرے جزوی رجحانات بھی نظر آتے ہیں جس سے قاری کو تشویش پیدا ہوتی ہے۔ دراصل کتاب وسنت ، جو کلام ومراد الٰہی ہیں، میں یہ جزوی تعارض اس بنا پر آخرکار رفع ہوجاتے ہیں کہ وہ اصل شریعت ہیں اور وحی الٰہی پر مبنی ہیں، جبکہ فاضل اہل علم کی آرا کو کسی ایک مسئلہ پر بالکل یکجان کرکے پیش کرنا بعض اوقات ممکن نہیں ہوتا کیونکہ مختلف اشخاص سے صادر ہونے کی بنا پر اُن کے رجحانات اور توجیہات میں حقیقی فرق موجود ہوتا ہے۔ ہرفقیہ اپنے طور پر کسی مسئلہ کی توجیہ کرتا اور اس میں ترجیح قائم کرتا ہے، اس لئے کتاب وسنت کے متون ومعانی جیسا کلّی فکری اتحادفقہی عبارتوں میں تلاش کرنا مشکل ہے۔ کیا توہین رسالت کی سزا کی اساس محاربہ ہے؟ جملہ محدثین کرام،فقہاے عظام اور مضمون نگار کے موقف میں جو بنیادی فرق ہے، وہ یہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے ہاں مسلمان شاتم رسول کی سزا کے قتل ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کی یہ سزا بالاجماع ہے، اس میں کمی بیشی اور تکرار واظہار کا کوئی فرق نہیں ہے۔ تاہم ذمی کے بارے میں بعض حنفی فقہا نے یہ تفصیل ضرور پیش کی ہے کہ تکرار واظہار کی بنا پر سیاستاً ومصلحتاً اس کی سزا قتل ہوگی ، لیکن اس موقف میں آگے بڑی تفصیل ہے۔ جبکہ دوسری طرف مضمون نگار سرے سے اس جرم کی مقررہ سزا ہی نہیں مانتے بلکہ وہ موقف جو ذمی حضرات کے بارے میں بعض حنفی فقہا کی طرف منسوب ہے، اس کو اس مسئلہ میں اصل قرار دیتے ہوئے، اسی مسئلہ کو مسلمان وغیر مسلم تمام کے لئے یکساں سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر مضمون نگار کا یہ موقف اُمت ِمسلمہ کے اجماع سے صریح انکار کے مترادف ہے۔اس موقف کو اختیار کرنے کی وجہ احادیث ِرسول اور اجماع صحابہ کی دلالت کو نظرانداز کرتے ہوئے، ان کی یہ تاویل کرنا ہے کہ احادیث میں یہ سزائیں تکرار جرم یا توہین رسالت کے ساتھ مزید جرائم مل جانے کی بنا پر یا جنگی سیاق میں دی گئی ہیں ، ظاہر ہے کہ احادیث کے بارے میں ان کی یہ تاویل قطعاً درست نہیں ۔ الغرض بعض حنفی علما نے ذمّیوں کے لئے علیحدہ مسئلہ بیان کیا ہے لیکن موصوف نے اس فرق کو ذمیوں کے لئے مخصوص رہنے کی بجائے اس کو اصل مسئلہ کے تعین میں اساس کی حیثیت دے لی ہے اور ذمیوں کا موقف مسلمانوں کے ساتھ خلط ملط کرکے،اضطراب
Flag Counter