ذمّیوں کی بجائے اگر غیرمسلموں کا لفظ استعمال کریں تو اس کو بھی حنفی موقف کی درست ترجمانی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ بعض احناف کےموقف میں ذمّیوں کے لئے تو فرق پایا جاتا ہے غیرمسلموں کے لئے نہیں ۔ غیرمسلم یعنی کفار کے لئے فقہائے احناف کا موقف بڑا واضح ہے جو اِن الفاظ میں صاحب ِ’درمختار‘ علامہ حصکفی حنفی نے بیان کیا ہے: و (الكافر بسب نبي) من الأنبياء فإنه يقتل حدًّا ولا تقبل توبته مطلقًا ولو سبّ الله تعالى قبلت لأنه حق الله تعالى والأول حق عبد لا يزول بالتوبة ومن شك في عذابه وكفره كفر [1] ’’جہاں تک شاتم نبوت یا کسی اور نبی کے گستاخ کافر کا تعلق ہے تو اس کو بطور حد قتل کیا جائے گا، اور مطلقاً اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ تاہم اگر وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرے تو اس کی توبہ مقبول ہوسکتی ہے کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے جبکہ پہلے جرم میں بندے کا حق بھی شامل ہے جو توبہ سے زائل نہیں ہوتا ۔ جو شخص کافر کی اس سزا اور اسکے کفر میں شک کرے تو وہ بھی کافر ہوجاتا ہے۔‘‘ قاضی ابن عابدین شامی بھی اس کی شرح میں لکھتے ہیں: والْكَافِرُ بِسَبِّ نَبِيٍّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّاوَلَاتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ مُطْلَقًا [2] ’’جہاں تک کسی کافر شاتم رسول کا معاملہ ہے تو اس کو حد کے طورپر قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ مطلقاً قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘ ٭ یہاں یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ اگر بعض حنفی علما کے ذمیوں کے بارے میں موقف کو اختیار کیا جائے تو اس سے مسلم ممالک کی موجودہ صورتحال میں فقہی طورپر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کیونکہ فی زمانہ پاکستان میں غیر مسلم حضرات اپنے آپ کو ذمّی نہیں مانتے، وہ اس حیثیت کو قبول کرنے کی بجائے مساوی مقام کے دعویدار ہیں، اس بنا پر ان میں سے کوئی ایک بھی ذمہ ادا کرنے کے سوال سے ہی بھڑک اٹھتا ہے ، جیسا کہ یہ بات واضح ہے۔ ان پرشرعاً کافر کے احکامات کا ہی اطلاق ہوگا جس کی سزا آپ اوپر ملاحظہ کرچکے ہیں۔ نوٹ: مذکورہ بالا فقہی اقوال میں استدلال کے لئے جب بعض عبارتوں کو پیش کیا گیاتو ان |