iii. جن حنفی فقہا کے بارے غلطی کا دعویٰ کیا گیا ہے، اُن کی اصل تحریروں کو دیکھا جائے تو اس سے بھی اس الزام کی تائید نہیں ہوتی، کیونکہ اُنہوں نے اس موقف کو یا تو براہِ راست استدلال کی بنا پر اختیار کیا ہے یا صدرِ اول سے چلے آنے والے اختلاف کی بنا پر ... نامور حنفی فقہا مثلاً امام ابن ہمام(م 861ھ)، ابن نجیم (م 970ھ)، علامہ خسرو (م 885ھ)، علامہ تمرتاشی اور شیخ خیر الدین الرملی وغیرہ نے اس موقف کو امام محمد سے لیا ہے۔ اور امام خیر الدین رملی اور امام آلوسی نے زبردست شرعی دلائل کی بنا پراس فقہی موقف کو اختیار کیا ہے اور امام ابن ہمام نے بھی توبہ کی عدم قبولیت کی واضح صراحت کی ہے۔یہ فقہا اس موقف کو امام ابو حنیفہ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فرمان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔الغرض اس باب میں حنفی فقہا کی عظیم اکثریت جمہور علماء اُمت کے ہی ساتھ ہے۔ iv. حنفیہ کے بارے میں ہمارے اس موقف کو یہ بات بھی تقویت دیتی ہے کہ امام ابو حنیفہ کسی صحابی کے قول کے خلاف رائے دینے کے قائل نہیں ۔ جبکہ اس معاملہ میں صحابہ کا اجماع ہے، بالخصوص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور متعدد صحابہ کاشتم رسول پر ذمی کے نقض عہد کے بارے میں صریح فرمان موجود ہے۔ v. احناف کا موقف سیدنا ابوبکر وعمرکی گستاخی کے بارے میں یہ ہے کہ اس کے مرتکب کی توبہ قبول نہیں، جب احناف کا موقف شیخین کے بارےمیں اس قدر واضح ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی احناف کا موقف اس قدر پختہ ہی ہونا چاہئے۔ امام ابن نجیم حنفی کتاب السیر کے ’باب الردۃ ‘میں لکھتے ہیں: كل كافر تاب فتوبته مقبولة في الدنيا والآخرة إلا جماعة: الكافر بسب نبي وبسب الشيخين أو أحدهما [1] ’’ہرکافر کی توبہ دنیا اور آخرت میں قبول ہوسکتی ہے ، مگر ایسا کافر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا شیخین رضی اللہ عنہم کی گستاخی کرکے کافر ہو تو اس کی توبہ قابل قبول نہیں۔‘‘ ٭ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ ممدوح مضمون نگار حنفیہ کے موقف کی تعبیر کرتے ہوئے |