Maktaba Wahhabi

58 - 95
بات درست نہیں کیونکہ i. اوّل تو یہ موقف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی نے بھی امام صاحب سے روایت کیا ہے،گویا امام محمد سے ہی یہ موقف احناف میں چلا آرہا ہے۔ اور صدرِ اوّل سے ہی احناف میں دو موقف موجود ہیں جیساکہ اس بات کا تذکرہ قاضی شامی نے اپنی کتاب ’العقود الدریہ‘ میں بھی کیا ہے: أَنَّ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم يَكْفُرُ فَإِنْ تَابَ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ وَلَا يُقْتَلُ عِنْدَهُ وَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ، خِلَافًا لِمُحَمَّدٍ رَحِمَهُ الله [1] ’’جو بھی نبی کریم کو سبّ وشتم کرے گا، وہ کافر ہوجائے گا ، تاہم اگروہ توبہ کرلے تو امام ابو حنیفہ او رقاضی ابو یوسف کے ہاں اس کی توبہ قابل قبول ہوگی اور اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، جبکہ امام محمد بن حسن نے اس موقف سے اختلاف کیا ہے۔‘‘ عدم قبولیت توبہ پر امام محمد کے اس قول سے معلوم ہوتاہے کہ حنفیہ میں یہ اختلاف روزِ اوّل سے چلا آرہا ہے، نہ کہ یہ امام ابن بزاز کی روایت پر ہی موقوف ہے۔ ii. اگر قاضی ابن عابدین کے بقول اس موقف کو ابن بزاز کی غلطی ہی مانا جائے یا اَحناف میں اس موقف کا خالق ابن بزاز(م827ھ) کو ہی سمجھا جائے تو پھرسوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سے پانچ صدیاں قبل ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص حنفی (م370ھ) نے ذمی کے نقض عہد کا موقف کہاں سے اختیار کیا؟ان سے چار صدیاں قبل امام ناطفی (م446ھ)حنفی نے کیسے کہہ دیا کہ توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ایسے ہی ابن بزاز سے کہیں زیادہ معروف ان کے معاصرین امام عینی (م 855ھ) اور ابن ہمام (م 861ھ) کو بھی کیا ضرورت پڑی تھی کہ حنفی موقف خود دیکھنے کی بجائے وہ اپنے ایک معاصر کی رائے پر اکتفا کریں، جبکہ ابن ہما م کا تو لقب ہی احناف کے ہاں ’خاتمہ المحققین‘ ہے ۔ اسی طرح ابن نجیم جنہیں احناف میں ’ابو حنیفہ ثانی‘ کا لقب دیا گیا ہے، اُنہیں کیوں کر یہ عظیم غلطی لگی؟ ظاہر ہے کہ یہ ان کے فہم اور تفقہ دین کی صلاحیت اور علمی مقام پر طعن طرازی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ۔
Flag Counter