Maktaba Wahhabi

57 - 95
نجیم حنفی نے ’ارتدادِ مغلظ‘اورقاضی عیاض السبّ أقبح الثلاثةکے الفاظ استعمال کرکے اس کی نشاندہی کی ہے اور اسی کو ’ردہ عامہ ‘یا ’ردہ خاصہ‘ سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شتم رسول کو مستقل حد قرار دینا یا بعض احناف کے اسے ارتداد قرار دینے میں باہم مطابقت نکل آتی ہے اوربعد کے فقہاے احناف کی اس صراحت کے ذریعے حنفیہ کے ہاں اس سزا کی توجیہ وتعلیل میں موجودد ظاہری اختلاف بھی رفع ہوجاتا ہے۔ 13. ’حسب المفتین‘ کے مصنّف، دسویں صدی کے حنفی عالم قاضی عبد المعالی لکھتے ہیں : في شفاء القاضي عن أصحابنا وغيرهم من المذاهب الحق أن توبته لم تقبل وقتل بالإجماع [1] ’’قاضی عیاض کی’الشفا‘میں ہمارےحنفی ساتھیوں اور دیگرفقہی مذاہب کا یہ موقف حق بیان ہوا ہے کہ اجماعی طورپر شاتم کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، اور اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘ شاتم کی قبولیتِ توبہ کا مسئلہ یہاں تک ہونےوالی بحث میں ذمی کے لئے نقض عہد کا مسئلہ پیش کیا گیا کہ جو حنفی فقہا اس کو نقض عہد قرار نہیں دیتے ، وہ بھی ثبوتِ جرم کے بعد سزائے قتل کے رفع کے قائل نہیں ہیں اور جو اسے نقض عہد سمجھتے ہیں وہ تو بالا ولیٰ شاتم ذمی کو واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا مسئلہ توبہ کی قبولیت وعدم قبولیت کا پیدا ہوتا ہے، اس بارے میں حنفی علما : بزازی، رملی، ابن نجیم اور ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہم کا موقف شاتم کی عدمِ قبول توبہ کا ہےجس کی فقہی اساسات بھی گزر چکی ہیں۔ قاضی ابن عابدین شامی نے کہا ہے کہ احناف میں فتاویٰ بزازیہ کے مؤلف شیخ محمد بن شہاب المعروف ابن البزاز(متوفیٰ 827ھ)نے شاتم رسول کی توبہ کے مسئلے میں غلطی کھائی ہے اور اُنہوں نے حنفیوں کا موقف غلط ذکر کردیا ہے، اور اس کے بعد اُن کی اس غلطی پر بعد میں آنے والے علماے احناف نے اسی غلط موقف کو اختیار کرلیا، حالانکہ قاضی شامی کی یہ
Flag Counter