Maktaba Wahhabi

56 - 95
اور ابن بزاز نے جن الفاظ میں اسے اختیار کیاہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے استدلال ورجحان کا محور یہی موقف ہے جو پانچویں صدی ہجری سے فقہ حنفی میں مشہور ہے۔ دراصل شتم رسول کے بارے میں یہ نکتہ اساسی حیثیت رکھتا ہے کہ یہ جرم ارتداد وعقوقِ والدین وغیرہ کی طرح محض گناہ نہیں بلکہ زنا ،سرقہ اورتہمت جیسے جرائم کی طرح ایک قابل سزا جرم بھی ہے۔ کیونکہ اس میں ذاتِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتہام طرازی کی گئی ہے جو ان پر جنایت(زیادتی) کے مترادف ہے۔ ذاتِ نبوت پر جنایت کے ذریعے پوری اُمتِ اسلامیہ کے دل بھی چھلنی کئے گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے شتم رسول کے جرم میں اللہ کا حق، رسول اللہ کا حق اور اُمت کا حق ، متاثر ہوتے ہیں۔ [1] آخری اقوال میں نہ صرف اس کی قانونی علت پیش کی گئی بلکہ اس جرم کے براہِ راست ارتداد نہ ہونے اور اس کے کلّی مماثل نہ ہونے کی نفی بھی کی گئی ہے اور یہی شرعِ اسلامی کا اصل وحقیقی موقف ہے۔یعنی یہ سنگین جرم پہلے حق نبوت میں ڈاکہ زنی کی بنا پر قابل سزا شرعی حد ہے۔ اس کے بعد اس کی شناعت وشدت کا یہ عالم ہے کہ شاتم کو ارتداد کی طرف لے جاتاہے۔ جن علما نے اس کو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق کے موقف کی طرح براہِ راست حد اور قابل سزا بتایا ، ان کا موقف کھرا ہے اور جنہوں نے اس کو ارتداد قرار دیا ہے، ان کے موقف میں قدرے گنجائش پائی جاتی ہے۔ پھر وہ اسے محض ارتداد بنا کر، مرتد کی توبہ کا مسئلہ لے آتے یا ذمّی کا معاملہ کھول لیتے ہیں کیونکہ مرتد کی سزا مسلمان کے لئے ہی ہوتی ہے اورذمی پر لاگو نہیں ہوتی۔ واضح رہے کہ شتم رسول کے مسئلہ میں ارتداد سے انکار نہیں بلکہ یہ ارتداد کی بدترین صورت ہے کیونکہ اس میں ارتداد سے قبل ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادتی بھی ہے۔اس بنا پر ایسے مجرم کا کفر عام ارتداد سے زیادہ بڑا، زیادہ قبیح اور زیادہ شدید ہے، جیساکہ علامہ ابن تیمیہ نے السبّ أعظم من جرم المرتد ،[2] قاضی ابن عابدین نے إن كفره أشنع،علامہ ابن
Flag Counter