Maktaba Wahhabi

55 - 95
قتل کیا جائے گا اور اس کی کوئی توبہ نہیں ، چاہے پکڑے جانے کے بعد ہو یا گواہیوں کے بعد یا وہ ازخود توبہ تائب ہوکر پیش ہوجائے ، زندیق کی طرح ۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو اکیلی توبہ سے ساقط نہیں ہوگی، جس طرح انسانوں کے دیگر حقوق کا معاملہ ہے او رجس طرح تہمت کی حد کا مسئلہ ہے جو توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔ برخلاف اس شخص کے جس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی تو اللہ سے توبہ کرکے وہ اللہ کے حق کو ادا کردیتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ درحقیقت تمام عیوب سے مبرا ومنزہ ذات باری ہے(یعنی اللہ کی گستاخی کرنے والا توبہ کرکے اپنے آپ سے دنیوی حدّ کو ساقط کراسکتا ہے)۔اور برخلاف اس شخص کے بھی جو مرتد ہوگیا [تو وہ توبہ کرکے اپنے آپ سے سزا کو ساقط کرسکتا ہے] کیونکہ ارتداد میں انسانوں کا کوئی حق مجروح نہیں ہوا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جس نے نبی کریم کی گستاخی کی اسے معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اب آپ کا حق معاف نہیں ہوسکتا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، امام اعظم ابوحنیفہ، امام ثوری، اہل کوفہ رضی اللہ عنہم کا یہی موقف ہے اور امام مالک اور ان کے متبعین کا بھی یہی موقف مشہور ہے۔‘‘ 12.تفسیر قرطبی کے مصنّف امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی رقم طراز ہیں: أکثر العلماء علىٰ أن من سب النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أهل الذمة أو عرض واستخف بقدره أو وصفه بغیر الوجه الذي کفر به فإنه یقتل [1] ’’اکثر علما کا کہنا ہے کہ اہل ذمّہ میں سے جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے یا تعریض کرے یا آپ کی قدر ہلکی جانے یا اپنے کفر کے علاوہ کسی چیز سے آپ کو موصوف کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ ہم اسے ذمّہ یا عہد و پیمان نہیں دے سکتے۔‘‘ اوپر کے چار اقوال نمبر5 تا 8میں نہ صرف یہ کہ ذمّی کے لئے شتم رسول کے بعد نقض عہد کے موقف اختیا رکیا گیا ہے بلکہ بعد میں 9 تا 11/اقوال میں اس جرم کو براہِ راست حد قرار دیتے ہوئے، اُس کے ناقابل معافی ہونے کی شرعی توجیہات بھی پیش کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ آخری موقف جس حنفی فقیہ نے اختیار کیا ہے اور اسے امام ابو حنیفہ سے بھی منسوب قراردیا ہے، ان کا زمانہ پانچویں صدی ہجری کا وسط ہے۔ اور بعد میں خیرالدین رملی
Flag Counter