جائے، یا اس کے خلاف گواہی دی جائے یا وہ خود توبہ کرکے آپہنچے، مثل زندیق کے۔ کیونکہ اس پر حد واجب ہوگئی جو انسانوں کے دیگر حقوق کی طرح محض توبہ سے ختم نہیں ہوجاتی۔جیسا کہ تہمت طرازی کی حد ہے جو توبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ برخلاف اللہ کی گستاخی کے، کیونکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے۔ جبکہ نبی بشر ہیں اور بشر کو شرم وعار لاحق ہوسکتی ہے مگر جسے اللہ تعالیٰ عزت دے اور باری تعالی خود تو ہر قسم کے عیوب ونقائص سے بالاترہیں۔ اور برخلاف ارتداد کے بھی کیونکہ ارتداد میں انسان کسی دوسرے انسان کا حق متاثر نہیں کرتا۔ اسی بنا پر ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبّ وشتم کرے گا، اس کو معاف نہیں کیا جائے گا اور اس کو حد کے طورپر قتل کردیا جائے گا۔ یہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، امام اعظم، ثوری، اہل کوفہ کا موقف ہے اور امام مالک اور ان کے شاگردوں سے مشہور موقف بھی یہی ہے۔‘‘ 10. امام خیر الدین رملی حنفی (م 993ھ)کا قول شمارہ ہذا کے صفحہ نمبر 81 پر ملاحظہ فرمائیں۔ 11. امام ابو عباس احمد ناطفی [1]حنفی(م446ھ)نے اپنی کتاب ’الاجناس فی الفروع ‘میں لکھاہے : أما إذا سبّ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أو واحدًا من الأنبياء عليهم السلام يقتل حدًّا ولا توبة له أصلا سواء بعد القدرة والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه كالزنديق لأنه حد وجب فلا يسقط بالتوبة كسائر حقوق الآدميين وكحد القذف لا يزول بالتوبة بخلاف من سبّ الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعاليٰ والباري تعالىٰ منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه يتفرد به المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولهٰذا قلنا إذا شتمه صلی اللہ علیہ وسلم لا يُعفٰى ويُقتل أيضًا حدًا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والإمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة رضوان الله عليهم والمشهور من مذهب المالك وأصحابه رحمهم الله [2] ’’جو شخص بھی رسول اللہ یا کسی نبی کو دشنام طرازی کرے، تو اس کو حد کے طورپر |