مِمَّا لَا يَعْتَقِدُونَهُ كَنِسْبَةِ الْوَلَدِ إلَى اللهِ تَعَالَى وَتَقَدَّسَ عَنْ ذَلِكَ إذَا أَظْهَرَهُ يُقْتَلُ بِهِ وَيُنْتَقَضُ عَهْدُهُ [1] ’’میرے نزدیک مختار یہ ہے كہ ذمی نے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کی یا اللہ تعالی جل جلالہ کی طرف غیر مناسب چیز منسوب کی جو ان کے اعتقادات سے خارج ہے۔ جب وہ ان چیزوں کا اظہار کرے تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا اور اسے قتل کردیا جائے گا۔ ‘‘ علامہ ابن ہمام کا ایک قول پیچھے نمبر5 کے تحت بھی گزر چکا ہے، وہاں اُنہوں نے ا س جرم کو مستقل حد قرار دیتے ہوئے واجب القتل قرار دیا اور اس کی توبہ کی عدم قبولیت کا موقف پیش کیاتھا، اسی بنا پر وہ یہاں ذمّی کے لئے اس جرم کو نقض عہد اور وجوبِِ قتل کی بنیاد قرار دے رہے ہیں۔ اظہار کا مفہوم یہاں وہی ہے جو ثبوتِ جرم کا تقاضا ہے۔ 9. فتاویٰ بزازیہ کے مؤلف شیخ محمد بن شہاب ابن البزاز حنفی (متوفیٰ 827ھ) لکھتے ہیں: إذا سبّ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم أو واحدًا من الأنبیاء فإنه یقتل حدًا فلا توبة له أصلًا سواءً بعد القدرة علیه والشهادة أو جاء تائبًا من قبل نفسه کالزندیق لأنه حدّ وجب فلا یسقط بالتوبة کسائر حقوق الآدمیین کحد القذف لا یسقط بالتوبة بخلاف ما إذا سب الله تعالىٰ ثم تاب لأنه حق الله تعالىٰ ولأن النبي عليه السلام بشر والبشر جنس يلحقهم المعرة إلا من أكرمهم الله تعالىٰ والباري منزه عن جميع المعايب وبخلاف الارتداد لأنه معنى يتفرد المرتد لا حق فيه لغيره من الآدميين ولكنه قلنا إذا شتمه عليه الصلوة والسلام لا يعفى ويقتل أيضا حدًّا وهذا مذهب أبي بكر الصديق رضي الله عنه والأمام الأعظم والثوري وأهل الكوفة والمشهور من مذهب مالك وأصحابه [2] ’’جب کوئی بدبخت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نبی کی گستاخی کرے، تو اس کو بطورِ حد قتل کردینا واجب ہے۔ اس کی اصلاً کوئی توبہ قابل قبول نہیں، چاہے اس کوپکڑ کرلایا |