6. ذمّی کے بارے یہی موقف علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی اختیا ر کیا ہے کہ اس کو بھی قتل کیا جائے: ولٰکنّ أنا معه في جواز قتل الساب مطلقًا [1] ’’تاہم میں مطلقاً ہر شاتم رسول کو قتل کرنے کے حق میں ہوں۔‘‘ واختياري في السب أن يقتل[2] وتبعه ابن الهمام [3] ’’میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے کو قتل کیا جائے۔ اور اس موقف میں ان کی پیروی ابن ہمام نے بھی کی ہے۔‘‘ امام ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص اور علامہ بدرالدین عینی کے دیگر اقوال اسی شمارے کے صفحہ نمبر79،83 پر بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ 7. علامہ شہاب الدین آلوسی بعض احناف کے اِس موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: والقول بأن أهل الذمة يقرون على كفرهم الأصلي بالجزية وذا ليس بأعظم منه فيقرون عليه بذلك أيضًا وليس هو من الطعن المذكور في شيء ليس من الانصاف في شيء. ويلزم عليه أن لا يعزّروا أيضًا كما لايعزرون بعد الجزية علي الكفر الأصلي ولعمري بيع يتيمة الوجود صلی اللہ علیہ وسلم بثمن بخس [4] ’’یہ کہنا کہ چونکہ جزیہ کی ادائیگی کے بعد اہل ذمہ کو ان کے کفر اصلی پر قائم رہنے کی اجازت دی جاتی ہے اور سبّ وشتم اس کفر سے بڑا نہیں ہے، اس لئے انہیں اس پر بھی قائم رہنے دیا جائے گا، انصاف سے بالکل بعید بات ہے۔ اس صورت میں تو یہ لازم آئے گا کہ جیسے انہیں جزیہ ادا کرنے کے بعد انکے کفر اصلی پر کوئی تعزیر نہیں کی جاتی، اسی طرح سبّ وشتم پر بھی کوئی تعزیر نہ کی جائے۔ واللہ ! یہ تو کائنات کے درّ یتیم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت حقیر قیمت کے عوض فروخت کردینے کے مترادف ہے۔‘‘ 8. امام محقق ابن ہمام حنفی (م 861ھ)لکھتے ہیں: وَاَلَّذِي عِنْدِي أَنَّ سَبَّهُ صلی اللہ علیہ وسلم أَوْ نِسْبَةَ مَا لَا يَنْبَغِي إلَى اللَّهِ تَعَالَى إنْ كَانَ |