Maktaba Wahhabi

51 - 95
اور اس ثبوت ِ جرم کے بغیر کوئی بھی شتم رسول کے مبینہ ملزم کو سزا دینے کا قائل نہیں ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہوا کہ ذمی کے بارے میں ان احناف کا موقف جو اسے نقض عہد نہیں مانتے، تعبیر کی حد تک ہی مختلف ہے، اگر اسے ان دونوں نکات (سزاے قتل کا عدم رفع اور اظہار سے مشروط) کو مانا جائے تو پھر ذمی کے باب میں ان کا موقف پوری اُمت کے ساتھ ہی ہے۔مزید یہ بھی پتہ چلا کہ مسلمان شاتم کے واجب القتل ہونے کی حد تک تو ویسے ہی احناف اجماعِ امت میں داخل ہیں۔ اور ذمی کے بارے میں ، اگر پاکستان کے غیرمسلموں کو بالفرض ذمی مان بھی لیا جائے تو ان کو سزاے قتل نہ دینا فقہ حنفی کے خلاف ہرگز نہیں ہے کیونکہ فقہ حنفی میں ذمی کے لئے بھی سزاے قتل موجود ہے جیسا کہ مذکورہ اقوال اور مولانا ظفر احمد عثمانی کی علامہ ابن حزم پر تنقید سے بالکل واضح ہے۔ 5. ابھی تک ان احناف کا موقف گزرا ہے جو ذمی کے لئے سبِّ رسول کو نقض عہد نہیں مانتے، لیکن احناف میں اکثریت اُن کی ہے جو اُسے نقض عہد تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ ایسے حنفیّہ کے موقف میں اساس کے لحاظ سے ہی جمہور علما کے ساتھ کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ یہ اکثر و نامور حنفی فقہا جمہوراہل علم کی طرح اسی بات کے قائل ہیں کہ ذمّی کو بھی تعزیر کی بجائے قتل کی سزا ہی دی جائے اور اس فعل بد سے اُس کا عہد ِامان ٹوٹ جائے گا جیسا کہ امام ابو بکر رضی اللہ عنہ جصاص حنفی (م 370ھ)لکھتے ہیں: وقال الليث في المسلم يسب النبي صلی اللہ علیہ وسلم إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه... وظاهر الآية يدل على أن من أظهر سبّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم من أهل العهد فقد نقض عهده [1] ’’لیث بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والے مسلمان کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مناظرہ ومباحثہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا بلکہ اسے اسی جگہ قتل کردیا جائے گا ۔ ... آیتِ مذکو ر﴿وَاِنْ نَّكَثُوْا اَیْمَانَہُمْ ...﴾ کا ظاہر اس امر پر دلالت کرتاہے کہ معاہدین میں جس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کو ظاہر کیا، گویا اس نے اپنا عہد توڑ دیا۔‘‘
Flag Counter