علانیہ گالی دے، اور’سیر الذخیر ہ‘ میں اس کی صراحت مصنف نے يوں کی ہے کہ امام محمّد نے علانیہ شتم رسول کی مرتکب عورت کو قتل کرنے میں عمیر بن عدی کے عصما بنتِ مروان کو رات کے وقت قتل کرنے سے استدلال کیا ہے ۔‘‘ [1] ٭ امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی (متوفی: 189ھ)فرماتے ہیں: قال محمّد في السير الكبير وكذلك إن كانت تعلن بشتم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فلا بأس بقتلها [2] ’’امام محمد نے السیر الکبیر میں فرمایا ہے کہ اور اسی طرح عورت رسول اللہ کو علانیہ گالی دے تو اس کے قتل میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ ٭ علامہ شہاب الدین شلپی لکھتے ہیں: إذا أظهره يقتل[3] ’’جب ذمی علانیہ گستاخی کا ارتکاب کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘ ٭ علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی لکھتے ہیں: وبالجملة فلا خلاف بین العلماء في قتل الذمي أو الذمية إذا أعلن بشتم الرسول أو طعن في الإسلام طعنًا ظاهرًا [4] ’’مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذمی مرد یا ذمیہ عورت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ گالی دے یا دین اسلام میں طعن کرے تو فقہاے احناف میں اس كی سزاے قتل میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ گویا شتم رسول کو ذمی کے لئے نقض عہد نہ ماننے والے سزاے قتل کو رفع نہیں کرتے ، جبکہ شتم رسول کا اظہار کرنے والے ذمی کی سزاے قتل پر جملہ فقہاے احناف کا اتفاق ہے۔ اوریہ بات واضح ہے کہ شتم رسول جب تک دو مسلمان گواہوں کے سامنے نہ ہو اور کمرے کے اندرخاموشی سے ہو تو شتم رسول کا جرم ہی ثابت نہیں ہوا، جب یہ جرم ظاہر ہوکر دو مسلمانوں کےعلم میں آجائے اور مسلم عدالت میں پہنچ جائے تو یہ شتم رسول کا اظہار ہے ۔ |