کوئی اس کی مقررہ سزا بیان نہیں کرتا اور یہ آٹھویں صدی میں امام ابن تیمیہ کی غلطی کا نتیجہ ہے، سراسر بے اصل اور غلط دعویٰ ہے۔ توہین رسالت پر اجماع کے اس بیان میں دو باتیں قابل تو جہ ہیں: اوّل، تو ان میں کسی مقام پر کمتر سزا کا تذکرہ موجود نہیں اوران میں بعض فقہا نے مباح الدم یعنی اس کے خون حلال ہونے کا جواُسلوبِ بیان اختیار کیا ہے، وہ اس کے واجب قتل ہونے کی سزا کو ہی بیان کرتا ہے، جیسا کہ اس کی صراحت بعض دیگر فقہا نے واجب القتل کے الفاظ سے بھی کی ہے، دیکھئے نمبر9،8،6،5،3 اور 10 اور بعض عبارتوں میں اس پر ’حد‘ کا لفظ بھی بولا گیا ہے جیسے نمبر2 اور 3 اور آگے آنے والے بہت سے اقوال۔ اس صراحت سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایسے مجرم کی سزا یہ ہے کہ اس کوقتل کی سزا دینا واجب ہے۔ اجماع کی یہ عبارات بتاتی ہیں کہ توہین رسالت کی شریعت ِاسلامیہ میں مقررہ سزا یعنی حد ہونے پر اُمت ِمسلمہ میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ دوم،متعدد مستند علما کی زبانی اُمت کے اجماع کے دعوے سے پتہ چلاکہ فقہاے احناف بھی اس اجماع میں شامل ہیں اورتوہین رسالت کی مقررہ سزا ہونا ہی ان کے ہاں اصل اور قدیمی موقف ہے، وگرنہ اجماع کا تقاضا ہی پورا نہیں ہوتا؟ بالخصوص کسی مسلمان شاتم پر سزاے قتل واجب ہونے کے بارے میں اجماع کی یہ عبارات احناف کے موقف پر صریح دلیل ہیں۔ یہی اصل مسئلہ ہے اور اس باب میں دیگر حنفی جزئیات استنثا ئی حیثیت رکھتی ہیں۔ فقہ حنفی میں توہین رسالت کی سزا ے قتل جہاں تک علماے احناف کے موقف کی بات ہے تو اُن میں بھی اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ توہین رسالت کی سزا قتل ہی ہے۔ ان میں یہ اختلاف تو ہے کہ شاتم رسول کی سزا بطورِ حد قتل ہے یا یہ جرم حد ارتداد کو مستلزم ہونے کی بنا پر مستوجب ِقتل ہے۔ یعنی جرم کی تعبیر وتوجیہ میں اختلاف موجود ہے لیکن جرم کی سزا میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس بنا پر یہ کہنا کہ علماے احناف کے ہاں اس کی سزا موت نہیں بلکہ تعزیری ہے، درست نہیں۔ ’حد‘ کی تعریف فقہ حنفی کی مستند کتاب کنزالدقائق کی شرح البحرالرائق میں یوں ہے کہ |