Maktaba Wahhabi

38 - 95
آپ کی عیب جوئی کا ارادہ کرے لیکن مراد دوسری چیز لے، او راس سے تبعاً گستاخی لازم آجائے یا وہ ایسا ارادہ نہ کرے بلکہ مذاق میں ایسا کرے یا اس کے علاوہ مقصد کچھ او رہو۔‘‘ مضمون نگار کا علامہ ابن تیمیہ کو اس ضمن میں پہلا شخص قرار دینا سراسر غلط ہے کیونکہ اوّل تو شتم رسول کی سزاے موت ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ ثانیاً، امام ابن تیمیہ (متوفی 728ھ) سے کئی سو برس قبل علامہ ابن المنذر (متوفی 319ھ) توہین رسالت کی مقررہ سزا پر نہ صرف اجماع کا دعویٰ کرچکے ہیں بلکہ اسی موقف کو اُنہوں نے امام مالک، احمد،لیث ، اسحٰق، اور امام شافعی کے حوالے سے بھی بیان[1] کیا ہے۔ اوپر جتنے بھی علما نے اس موضوع پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، وہ سب ہی امام ابن تیمیہ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ جبکہ امام ابن تیمیہ کے بعد اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کرنے والے امام سبکی اورحنفی علماے کرام میں سے قاضی ابن عابدین شامی،امام سرخسی، علامہ انورشاہ کشمیری، مولانا عبد المالک کاندھلوی، مولانا یوسف لدھیانوی اور مولانا رفیع عثمانی قابل ذکر ہیں جن میں بعض کے حوالے آگے آرہے ہیں۔ 14. علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی لکھتے ہیں : ولا خلاف بین المسلمین أن من قصد النبي صلی اللہ علیہ وسلم بذلك فهو ممن ینتحل الإسلام أنه مرتد فهو یستحق القتل [2] ’’تمام مسلمان اس پر متفق ہیں کہ جس شخص نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت اور ایذا رسانی کا قصد کیا ،وہ مسلمان کہلاتا ہو تو بھی وہ مرتد اورمستحق قتل ہے۔‘‘ مذكوره ائمہ کرام نے مختلف کتب میں توہین رسالت کی سزاے قتل ہونے پراجماعِ اُمت کی صراحت کی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ اس میں تکرار یا عدم تکرار وغیرہ کی کوئی تفصیل نہیں ہے اور یہی اُمت ِاسلامیہ کا اجماعی موقف ہے۔ پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں میں سے
Flag Counter