ہے۔اور اس پر کوئی صحیح دلیل بھی قائم نہیں ہے۔ ایسے بدبخت کے کفر پر کتاب وسنت اور اجماع وقیاس واضح دلیل ہیں۔‘‘ 11. فقہ حنفی کی ممتاز شخصیت امام سرخسی نے بھی شاتم رسول کے قتل پر اجماع نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ کہیں بھی ہو، اسے قتل کردیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے۔[1] 12. مضمون نگار کا یہ دعویٰ کہ کسی محدث نے توہین رسالت کو حد قرار نہیں دیا، بھی درست نہیں ۔ اس سلسلے میں بطورِ مثال امام نسائی (متوفیٰ 303ھ)کی سنن نسائی کو پیش کیا جاسکتا ہے جہاں انہوں نے تحریم الدم کے نام سے کتاب کا عنوان قائم کرکے ، اس میں ان جرائم کا تذکرہ کیا ہے جن سے خون کی حرمت ختم ہو کر، متعلقہ مجرم کا خون مباح ہوجاتا ہے۔اس کتاب کے تحت اُنہوں نے باب حکم من سب رسول الله کی احادیث بیان کیں۔ اسی کتاب کے تحت آپ سبّ وشتم سے قبل محاربہ کی احادیث بھی لائے ہیں اور بعد میں ساحر وجادوگر کے قتل کی احادیث کا تذکرہ کیا ہے۔ 13. شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ(م728ھ) لکھتے ہیں: وأما إجماع الصحابة فلأن ذلك نقل عنهم في قضايا متعددة ينتشر مثلها ويستفيض، ولم ينكرها أحد منهم فصارت إجماعًا [2] ’’جہاں تک اجماعِ صحابہ کی بات ہے تو وہ یوں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اس مسئلہ میں بہت سے فیصلے منقول ہیں جو مشہور ومعروف ہیں۔ صحابہ میں سے کسی نے اس کے خلاف فیصلہ نہیں کیا، اس بنا پر اس مسئلہ میں اجماعِ صحابہ ہے۔‘‘ قد اتفقت نصوص العلماء من جميع الطوائف على أن التنقص له كفر مبيح للدم … ولا فرق في ذلك بين أن يقصد عيبه لكن المقصود شيء آخر حصل السب تبعًا له، أو لا يقصد شيئًا من ذلك، بل يهزل ويمزج، أو يفعل غير ذلك [3] ’’تمام گروہوں کے علما کی عبارات کی مراد اس پر متفق ہے کہ نبی کریم کی تنقیص کفر اور خون کو حلال کرنے والی ہے۔اس میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ |