Maktaba Wahhabi

36 - 95
اس عبارت میں امام موصوف نے بیانِ اجماع کے ساتھ ساتھ نیت و ارادۂ گستاخی پر ایک اُصول بھی پیش کیا ہے جو قابل توجہ ہے، اسکی مزید تفصیل آگے علامہ ابن تیمیہ کے قول میں 10. قاضی ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں: فعُلم أن المراد من نقل الإجماع على قتله قبل التوبة ثم قال وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه [1] ’’اگر کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تو توبہ سے پہلے اس کو قتل کرنے پر اجماع ہے۔یہی نظریہ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر صحابہ کے اجماع کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وهذه نقول معتضدة بدليلها وهو الإجماع، ولا عبرة بما أشار إليه ابن حزم الظاهري من الخلاف في تكفير المستخف به [2] فإنه شيء لا يعرف لأحد من العلماء، ومن استقرأ سير الصحابة تحقق إجماعهم على ذلك، فإنه نقل عنهم في قضايا مختلفة منتشرة يستفيض نقلها ولم ينكره أحد، وما حكي عن بعض الفقهاء من أنه إذا لم يستحل لا يكفر زلة عظيمة، وخطأ عظيم لا يثبت عن أحد من العلماء المعتبرين، ولا يقوم عليه دليل صحيح، فأما الدليل على كفره فالكتاب والسنة والإجماع والقياس [3] ’’جو ہم کہہ رہے ہیں ، اس کا اعتماد وانحصار اجماع پر ہے۔ اور اس اجماع کو ابن حزم ظاہری کا یہ کہنا متاثر نہیں کرتا جہاں اُنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استخفاف کرنے والے کی تکفیر پر اختلاف کا تذکرہ کیا ہے۔یہ وہ شے ہے جس کو علما میں سے کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور جس نے صحابہ کے حالات کا مطالعہ کیا ہے ، اس پر ان کا اجماع واضح ہے۔ یہ چیز ان کے مختلف فیصلوں میں منقول ومشہور ہے جس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ اور بعض فقہا سے جو یہ نقل کیا گیا ہے کہ جب وہ یہ کام حلال سمجھ کر نہ کرے تو کافر نہیں ہوگا، یہ بہت بڑی لغزش اور غلطی ہے جو معتبر علما میں سے کسی سے ثابت نہیں
Flag Counter