نازل کردہ شے کو رد کرنے والا، یا انبیاء اللہ سے کسی نبی کو قتل کا ارتکاب کرنے والا اس فعل پر کافر ہوجاتا ہے۔‘‘ 5. قاضی حسین شافعی نے امام ابو بکر رضی اللہ عنہ فارسی سے نقل کیا ہے : أجمعت الأمة على أن من سب النبي يقتل حدًا [1] ’’اس پر اجماع امت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شاتم وگستاخ حد کے طورپرقتل کردیا جائے‘‘ اسی بات کو صحیح بخاری کی شرح فتح الباري میں حافظ ابن حجر نے یوں لکھا ہے: ونقل أبو بكر الفارسی أحد أئمة الشافعية في كتاب الإجماع: أن من سب النبي صلی اللہ علیہ وسلم مما هو قذف صريح كفر باتفاق العلماء، فلو تاب لم يَسقط عنه القتل؛ لأن حدَّ قذفه القتل، وحد القذف لايسقط بالتوبة ... فقال الخطابي لا أعلم خلافًا في وجوب قتله إذا كان مسلمًا ’’ائمہ شافعیہ میں سے امام ابوبکر نے کتاب الاجماع میں نقل کیا ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جس سے صریح تہمت ظاہرہوتی تھی تو ایسا شخص اجماعِ علماء کی رو سے کافر قرار پائے گا ۔ اگر توبہ بھی کرلے تو اس سے قتل ساقط نہیں ہوگا۔ کیونکہ اس کی اس تہمت کی حد قتل ہے ۔ اور تہمت یعنی قذف کی حد توبہ سے ساقط نہیں ہوتی ۔ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر وہ مسلم ہے تو اس کے واجب القتل ہونے میں مجھے کوئی مخالف نظر نہیں آیا ۔ ‘‘[2] 6. امام خطابی (متوفی:388ھ)کے حوالےسے اجماع کا دعویٰ صاحب ِفتح الباری نے بھی کیا ہے، جب کہ امام خطابی کے اپنے الفاظ یہ ہیں: ان السب منه الرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ارتداد عن الدین ولا أعلم أحدًا من المسلمین اختلفوا في وجوب قتله [3] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام طرازی کرنا دین سے ارتداد ہے۔ اور میں مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں جانتا جس نے اس کے واجب القتل ہونے پر اختلاف کیا ہو۔‘‘ |