( دیکھئے: الکفایہ فی علم الروایہ، ص ۲۹۲) بلکہ تدلیس کے بارے میں :’’الغالب علی حديثه لم تقبل رواياته‘‘ والا قول نقل کر کے خطیب نے فرمایا: ’’وقال آخرون: خبر المدلس لا يقبل إلا أن يوردہ علی وجه مبين غير محتمل لإيهام فإن أوردہ علیٰ ذلک قُبل،وهذا هو الصحيح عندنا‘‘ ’’اور دوسروں نے کہا: مدلس کی خبر ( روایت) مقبول نہیں ہوتی اِلا یہ کہ وہ وہم کے احتمال کے بغیر صریح طور پر تصریح بالسماع کے ساتھ بیان کرے، اگر وہ ایسا کرے تو اس کی روایت مقبول ہے اور ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے۔ ‘‘ ( الکفایہ ص ۳۶۱) 7 حافظ ابن الصلاح شہرزوری شافعی ( متوفی ۶۴۳ھ) نے کہا: ’’ والحکم بأنه لا يقبل من المدلّس حتی يبين، قد أجراه الشافعي رضي اﷲ عنه فيمن عرفناه دلّس مرة۔ واﷲ أعلم ‘‘ ’’اور حکم ( فیصلہ) یہ ہے کہ مدلس کی روایت تصریحِ سماع کے بغیر قبول نہ کی جائے، اسے شافعی رحمہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں جاری فرمایا ہے جس نے ہماری معلومات کے مطابق صرف ایک دفعہ تدلیس کی ہے۔ واللہ اعلم‘‘ ( مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والایضاح، ص ۹۹، دوسرا نسخہ، ص ۱۶۱) معلوم ہوا کہ امام شافعی کی طرح ابن الصلاح بھی ایک دفعہ تدلیس کرنے والے مدلس کی معنعن روایت کو صحتِ حدیث کے منافی سمجھتے تھے۔ابن الصلاح کے اس قول کو اصولِ حدیث کی بعد والی کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے اور تردید نہیں کی گئی، لہٰذا اسے جمہور کی تلقی بالقبول حاصل ہے۔ 8 علامہ یحییٰ بن شرف النووی ( متوفی ۶۷۷ھ) نے مدلس کے بارے میں فرمایا: ’’فما رواہ بلفظ محتمل لم يبين فيه السماع فمرسل۔۔۔وهذا الحکم جار فيمن دلّس مرة ‘‘ (التقریب للنووي فی اُصول الحدیث ،ص ۹ نوع ۱۲، مع تدریب الراوی للسیوطی: ۱/ ۲۲۹، ۲۳۰، دوسرا نسخہ ص ۲۰۱) ’’پس وہ ( مدلس راوی) ایسے لفظ سے روایت بیان کرے جس میں احتمال ہو ، سماع کی تصریح |