Maktaba Wahhabi

98 - 138
میں فرمایا:’’ھٰذا کتاب أعجب بہ عبد الرحمٰن بن مھدي ‘‘ ’’یہ کتاب عبدالرحمن بن مہدی کو پسند تھی ۔‘‘ ( الطیوریات: ۲/ ۷۶۱ ح ۶۸۱ وسندہ صحیح) 3 امام اسحق بن راہویہ رحمہ اللہ کے پاس امام شافعی کی کتاب ’الرسالہ‘ پہنچی، لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا، جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موافق تھے۔ 4 امام اسماعیل بن یحییٰ مزنی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کتبتُ کتاب الرسالة منذ زيادة علی أربعين سنة وأنا أقرأہ وأنظر فيه ويقرأ عليّ فما من مرة قرأت أو قُريء عليّ إلا استفدت منه شيئًا لم أکن أحسنه‘‘ (مقدمۃ الرسالہ، ص ۷۳ روایۃ ابن الاکفانی :۵۴ وسندہ حسن، تاریخ دمشق: ۵۴/۲۹۲، مناقب الشافعی للبیہقی:۱/ ۲۳۶ بحوالہ مناقب الآبری العاصمی ) ’’میں نے چالیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے کتاب الرسالہ ( نقل کر کے) لکھی اور میں اسے پڑھتا ہوں ، اس میں ( غور و فکر کے ساتھ) دیکھتا ہوں اور میرے سامنے پڑھی جاتی ہے، پھر ہر بار پڑھنے یا پڑھے جانے سے مجھے ایسا فائدہ ملتا ہے جسے میں پہلے اچھی طرح نہیں سمجھتا تھا۔‘‘ چالیس سال پڑھنے پڑھانے کے باوجود امام مزنی کو تدلیس کے مذکورہ مسئلے کا غلط ہونا معلوم نہیں ہوا جیسا کہ کسی صحیح روایت میں اُن سے ثابت نہیں ، لہٰذا ظاہر یہی ہے کہ وہ بھی ایک مرتبہ تدلیس کرنے والے راوی کی معنعن روایت کوصحیح نہیں سمجھتے تھے۔ 5 امام شافعی کی کتاب الرسالہ میں تدلیس والے مذکورہ قول کو مشہور محدث بیہقی نے نقل کر کے کوئی جرح نہیں کی بلکہ خاموشی کے ذریعے سے تائید فرمائی۔ (معرفۃ السنن والآثار: ۱/۷۶) معلوم ہوا کہ امام بیہقی کا بھی یہی مسلک ہے۔ محمد بن عبداللہ بن بہادر الزرکشی ( متوفی ۷۹۴ھ) نے کہا: ’’ وقد حکم البهقي بعدم قبول قول من دلّس مرة‘‘ إلخ ’’جو شخص ایک دفعہ تدلیس کرے تو اس کے بارے میں بیہقی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی روایت (معنعن ) غیر مقبول ہے۔ ‘‘ (النکت علیٰ مقدمہ ابن الصلاح ص ۱۹۱) 6 خطیب بغدادی نے امام شافعی کے قولِ مذکور کو روایت کیا اور کوئی ردّ نہیں کیا۔
Flag Counter