Maktaba Wahhabi

97 - 138
میرے پاس کتاب الرسالہ بھیجی۔ (کتاب الجرح والتعدیل:۷/ ۲۰۴ وسندہ صحیح، تاریخ دمشق لابن عساکر:۵۴/ ۲۹۱۔۲۹۲، نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیہقی:۱/ ۲۳۴ وسندہ صحیح) اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب الرسالہ سے راضی(متفق )تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں اُن کی طرف سے امام شافعی پر رد ثابت نہیں ، لہٰذا اُن کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے ، چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس ۔ امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ نے کہا:احمد بن حنبل نے شافعی کی کتابوں میں نظر فرمائی تھی /یعنی اُنھیں بغور پڑھا تھا۔ (کتاب الجرح والتعدیل :۷/ ۲۰۴ وسندہ صحیح) امام احمد بن حنبل نے اپنے شاگرد عبدالملک بن عبد الحمید میمونی سے کہا: ’’اُنظر في کتاب الرسالة فإنه من أحسن کتبه‘‘ ( تاریخ دمشق لابن عساکر ۵۴/ ۲۹۱ وسندہ صحیح) ’’کتاب الرسالہ دیکھو! کیونکہ یہ اُن کی سب سے اچھی کتابوں میں سے ہے۔ ‘‘ تنبیہ:اس تصریح کے مقابلے میں امام احمد کا قول:’’مجھے معلوم نہیں ۔‘‘ سوالاتِ ابی داود، ص۱۹۹ (محدث ص۴۳)سے پیش کرنا بے فائدہ اور مرجوح ہے۔ مسائل الامام احمد(روایۃ ابی داود ص ۳۲۲)سے استدلال کرتے ہوئے ایک شخص نے لکھا ہے:’’ مگر اس کے باوجود امام احمد رحمہ اللہ نے ہشیم کے عنعنہ پر توقف بھی کیا ہے۔ ‘‘ (محدث،ص۴۲) عرض ہے کہ اگر امام ہشیم ( جنھیں تدلیس کرنے میں مزہ آتا تھا ) کا عنعنہ مضر نہیں تھا تو اُن کی عَن والی روایت میں توقف کرنے کا کیا مطلب تھا؟کسی روایت میں توقف کرنا اس کی دلیل ہے کہ وہ روایت قابلِ حجت نہیں ہے۔ کیا کسی صحیح حدیث کے بارے میں بھی صحیح کہنے سے توقف کیا جا سکتا ہے؟ ! علماے کرام جب کسی روایت کو مدلس کے عنعنے کی وجہ سے ضعیف کہتے ہیں تو اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ راوی مدلس ہے اور روایت ِمذکورہ میں سماع ثابت نہیں ہے۔جب سماع ثابت ہو جائے تو فوراً رجوع کیا جاتا ہے اور روایت کو بغیر کسی توقف کے صحیح تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ فائدہ: امام اسحق بن راہویہ نے کہا کہ ( امام )احمد بن حنبل نے کتاب الرسالہ کے بارے
Flag Counter