Maktaba Wahhabi

96 - 138
1 امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ ( متوفی ۲۰۴ھ) نے فرمایا: ’’ ومن عرفناہ دلّس مرة فقد أبان لنا عورته في روايته‘‘ ( الرسالۃ : ۱۰۳۳) ’’جس کے بارے میں ہمیں معلوم ہوگیا کہ اُس نے ایک دفعہ تدلیس کی ہے تو اُس نے اپنی پوشیدہ بات ہمارے سامنے ظاہر کر دی۔ ‘‘ اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’فقلنا:لا نقبل من مدلّس حديثًا حتی يقول فيه:حدثني أو سمعت‘‘ ’’پس ہم نے کہا:ہم کسی مدلس سے کوئی حدیث قبول نہیں کرتے، حتیٰ کہ وہ حدثني یاسمعت کہے۔ ‘‘ ( الرسالۃ : ۱۰۳۵) امام شافعی کے بیان کردہ اس اُصول سے معلوم ہوا کہ جس راوی سے ساری زندگی میں ایک دفعہ تدلیس کرنا ثابت ہو جائے تو اُس کی عن والی روایت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ ابن رجب حنبلی ( متوفی ۷۹۵ھ) نے لکھا ہے: ’’ولم يعتبر الشافعي أن يتکرر التدليس من الراوي ولا أن يغلب علی حديثه،بل اعتبر ثبوت تدليسه ولو بمرۃ واحدۃ‘‘ ( شرح علل الترمذی :۱/ ۳۵۳ طبع : دار الملاح للطبع والنشر ) ’’اور شافعی نے اس کا اعتبار نہیں کیا کہ راوی بار بار تدلیس کرے اور نہ اُنھوں نے اس کا اعتبار کیا ہے کہ اس کی روایات پر تدلیس غالب ہو، بلکہ اُنھوں نے راوی سے ثبوتِ تدلیس کا اعتبار کیا ہے اور اگرچہ ( ساری زندگی میں ) صرف ایک مرتبہ ہی ہو۔‘‘ امام شافعی رحمہ اللہ اس اُصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علما ان کے ساتھ ہیں ، لہٰذا زرکشی کا’’وهو نص غريب لم يحکمه الجمهور‘‘ (النکت، ص ۱۸۸) کہنا غلط ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منہج اور اُصول میں امام شافعی رحمہ اللہ اکیلے تھے یاجمہور کے خلاف تھے!! تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے : 2 امام ابو قدید عبید اللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون ) سے روایت ہے کہ ( امام) اسحق بن راہویہ نے فرمایا:میں نے احمد بن حنبل کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کے مطابق(امام)شافعی کی کتابوں میں سے(کچھ) بھیجیں تو اُنھوں نے
Flag Counter