Maktaba Wahhabi

95 - 138
1 ابو الزبیر المکی (توضیح الکلام:۲/ ۵۵۸، دوسرا نسخہ ص ۸۸۹) 2 قتادہ بن دعامہ ( توضیح الکلام :۲/ ۲۸۳، دوسرا نسخہ ص ۶۸۸) 3 سلیمان بن مہران اعمش ( توضیح الکلام :۲/ ۷۶۵، دوسرا نسخہ ص ۱۰۳۰) 4 ابراہیم بن یزید نخعی ( توضیح الکلام:۲/ ۷۵۸۔ ۷۵۹، دوسرا نسخہ ص ۱۰۲۶) 5 محمد بن عجلان ( توضیح الکلام: ۲/ ۳۳۱، دوسرا نسخہ ص ۷۲۵) ان میں سے ابراہیم نخعی اور سلیمان اعمش دونوں حافظ ابن حجر عسقلانی کی طبقاتی تقسیم کے مطابق طبقۂ ثانیہ میں سے تھے۔ دیکھئے :الفتح المبین (۳۵/۲، ۵۵/۲) یاد رہے کہ حافظ ابن حجر کی یہ طبقاتی تقسیم صحیح نہیں ہے اور نہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے۔ نیز دیکھئے: ماہنامہ ’الحدیث‘ حضرو : ۶۷ص ۲۱۔ ۲۳ تدلیس کے بارے میں مفصل تحقیق کے لئے دیکھئے میری کتاب: تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات (۱/ ۲۵۱تا ۲۹۰ ، ۳/ ۲۱۸تا۲۲۳، ۶۱۲تا۶۱۴ ) ہمارا موقف یہ ہے کہ مدلس راوی کثیر التدلیس ہو یا قلیل التدلیس، ساری زندگی میں اُس نے صرف ایک دفعہ تدلیس الاسناد کی ہو اور اُس کا اس سے رجوع و تخصیص ثابت نہ ہویا معتبر محدثین کرام نے اسے مدلس قرار دیا ہو تو صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ دوسری کتابوں میں ایسے مدلس کی غیر مصرح بالسماع اور معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے، اِلا یہ کہ اس کی معتبر متابعت ، تخصیصِ روایت یا شاہد ثابت ہو۔تخصیصِ روایت کا مطلب یہ ہے کہ بعض شیوخ سے مدلس کی معنعن روایت صحیح ہویا اس کے بعض تلامذہ کی روایات سماع پر محمول ہوں ۔ یہی وہ اُصول ہے جس پر اہلِ حدیث، حنفی ، شافعی، مالکی ، حنبلی، دیوبندی ، بریلوی اور دیگر لوگ فریقِ مخالف کی روایات پر جرح کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں ، لیکن عصرِ حاضر میں بعض جدید علماء مثلاً حاتم الشریف العونی وغیرہ نے بعض شاذ اقوال لے کر کثیر التدلیس اور قلیل التدلیس کا شوشہ چھوڑ دیا ہے، جس سے اُنھوں نے اُصولِ حدیث کے اس مشہور اور اہم مسئلے کو لٹھ مار کر غرق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے اس مضمون میں انہی بعض الناس کا ردّ پیشِ خدمت ہے :
Flag Counter