سمعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم يقول:(لا نورث ما ترکنا صدضة)(رقم :۶۷۳۵) ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔‘‘ اس بارے میں شیعوں کی حدیث اُصولِ کلینی (جو شیعوں کی مستند کتاب ہے) کی روایت موجود ہے جس کامطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : عن أبي عبدﷲ قال: (إن العلماء ورثة الانبياء وذلک أن الانبياء لم يورثوا درهمًا ولا دینارًا وإنَّما أورثوا أحاديث من أحاديثهم فمن أخذ بشيء منها أخذ حظًا وافرًا) (اُصول کلينی، کتاب العلم) ’’علما، انبیا کے وارث ہیں اس لیے کہ انبیا اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑا کرتے بلکہ صرف علم کی باتیں چھوڑ جاتے ہیں ۔ جو شخص ان علمی باتوں میں سے کچھ حصہ لیتا ہے وہ بہت بڑا حصہ لیتا ہے۔‘‘ پس ان دونوں متفقہ روایتوں سے جو اَمر ثابت ہوتا ہے، وہی اہل حدیث کا مذہب ہے۔ میں نے اس روایت کو بعض مشاہیر شیعہ علما کی خدمت میں پیش کیا، لیکن تعجب ہے کہ جو جواب اُنہوں نے دیا۔اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میرے بیان سے پہلے اس روایت سے ان کے کان آشنا ہی نہ تھے۔آخر اُنہوں نے کہا کہ ایسے مسائل کا فیصلہ امام مہدی علیہ السلام ہی کریں گے۔ جس پر میں نے عرض کیا: بہت خوب ، چشم ما روشن دل ماشاد! چونکہ یہ مضمون دونوں گروہوں کی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، اس لیے جو سوال اس پر وارد ہوگا، اس کے جوابدہ دونوں گروہ ہوں گے۔پس اگر ہمارے جواب آئندہ سوالات کے اٹھانے کو کافی نہ ہوں تو شیعہ ہی کوئی جواب دیں ، کیونکہ بموجب ِروایت کلینی ان کا اور ہمارا مذہب اس مسئلہ میں ایک ہی ہے یا ایک ہی ہونا چاہئے۔ بعض شبہات اور ان کا جواب (1) ایک سوال اس پر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں تمام ایمانداروں کو خطاب کرکے فرمایا: ﴿يُوْصِيْکُمُ اﷲُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ…… الاية﴾ (النساء:۱۱) ’’ اللہ تم کو تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکی کی نسبت لڑکے کا دگنا حصہ ہے۔‘‘ اور یہ تو ظاہر ہے کہ اس قسم کے خطاب سرورِ عالم فداہ ابی و امی کو بھی شامل ہوتے ہیں ۔ |