پس آیت قرآنی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کوبھی تمام مسلمانوں کی طرح وراثت ملنی چاہئے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت ِموصوفہ ’عام مخصوص البعض‘ ہے یعنی جس قدر اس کا عموم ظاہر میں معلوم ہو رہا ہے، اتنا مراد نہیں بلکہ اس میں سے بعض اقسام دونوں گروہوں (سنی شیعہ) کے نزدیک اس حکم سے باوجودِ شمول آیت کے خارج ہیں ۔ چنانچہ حاشیہ پر ہم دونوں گروہوں کی کتب ِوراثت سے عبارت نقل کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے: ’’غلام خواہ مسلمان ہو۔ اور باپ کا قاتل اور مسلمان باپ کا کافر بیٹا (وغیرہ ذلک) باپ کے وارث نہ ہوں گے۔‘‘(سراجی و شرائع الاسلام) حالانکہ آیت ِمرقومہ میں عام حکم ہے۔ پس جس طرح یہ اقسام آیت سے باوجود شمول کے خارج ازحکم ہیں ، اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا بھی خارج ہیں ،کیونکہ انبیا کی اولاد وارث مال نہیں ہوتی۔ (2) دوسرا شبہ اس مضمون پر اس آیت سے کیا جاتا ہے جس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی وراثت سلیمان تک پہنچنے کا ذکر ہے۔ یعنی ورث سلیمان داؤد پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے باپ حضرت داؤد علیہ السلام سے وراثت پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثا (حضرت فاطمہؓ) کیوں وارث نہ سمجھے جائیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کو وراثت ِ علمی ملی تھی یعنی نبوت اور حکمت میں سلیمان داؤد علیہ السلام کے وارث ہوئے تھے نہ کہ مال و اَسباب میں ۔ علمی وراثت کے توہم بھی معتقد ہیں ۔اختلاف تو مالی وراثت میں ہے، اگر مالی وراثت مراد ہوتی تو اس کا ذکر ہی کیا ضروری تھا۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے تو ان کے وارث ہونے میں اشتباہ ہی کیا تھا جس کا بیان کرنا مناسب معلوم ہوا۔ نیز حضرت داؤد علیہ السلام کے اور بیٹے بھی تھے۔پھر بالخصوص حضرت سلیمان علیہ السلام کو وراثت مالی کیسے پہنچ گئی اور دوسرے محروم کیے گئے۔ ان وجوہ سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی علمی وراثت حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچی تھی، نہ کہ مالی۔ پس ہمارا مذہب بروایت ِسنی اور شیعہ، دونوں گروہوں کے معتبر کتابوں سے ثابت ہوگیا۔ |