سے اشارہ کرے۔ [1] 6. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی کی شان میں ہجوگوئی کرنے والی عورتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اُنہیں امان سے مستثنیٰ رکھا، حالانکہ آپ نے فتح مکہ پر تمام اہل مکہ کو عام امان دی تھی مگر گستاخی کے مرتکبین کوامان نہیں دی گئی اور حکم دیا کہ اگر یہ لوگ غلافِ کعبہ سے بھی چمٹے ہوئے مل جائیں تو اُنہیں قتل کردیا جائے ۔ 7. توہین رسالت کے مرتکب کے قتل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسا شخص اس مکروہ فعل سے دین ودنیا، عباد و بلاد میں فساد کے رواج کا باعث بنتاہے ۔ لہٰذا اس کے قتل میں دو مصلحتیں ہیں : پہلی مصلحت:اس سزا سے آئندہ کوئی اور اس طرح کے کام کی جرأت نہیں کرے گا۔ دوسری مصلحت:گالی دینے والے کے لئے بھی یہاں مصلحت ہے کہ اگر اس نے توبہ نصوحہ وصادقہ کر لی تو یہ حد اس کے لئے کفارہ کا باعث بنے گی جیسا کہ ماعز بن مالک اور غامدیہ پر حد قائم ہوئی جو اُن کے لئے کفارہ بن گئی ۔ گستاخِ رسول کی توبہ کی عدم قبولیت کے متعلق مذاہب ِاربعہ کا فیصلہ کویت کی جامع مسجد خالد بن ولید کے خطیب شیخ مہران ماہر عثمان نور نے مذاہب ِاربعہ ودیگر سے18 کے قریب ایسی عبارتیں نقل کی ہیں جن میں توبہ کے باوجود شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےقتل کاحکم ہے۔اِن میں سے ہم بطور اختصارِ چند ایک عبارتیں یہاں نقل کرتے ہیں : مالکیہ کا موقف امام قرطبی اپنی مایہ ناز تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’امام مالک اس ذمی سے متعلق فرماتے ہیں جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی ہو تو فرماتے ہیں کہ اس سے توبہ کرائی جائے گی اور اس کی توبہ اسلام قبول کرنا ہے ۔ اور ایک بار فرمایا: |