رحمہ اللہ نے الصارم المسلول اور اپنے الفتاوٰی میں بھی ذکر کیا ہے، چند ایک کو یہاں بیان کیا جاتا ہے : 1. فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا(الاحزاب:57) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے نہایت رسوا کن عذاب ہے ۔ ‘‘ 2. ایسا شخص محاربین کے حکم میں داخل ہےچنانچہ سورہ مائدہ کی آیت ۳۳کی روشنی میں ایسے افراد دنیاوی اُمور میں ناقابل معافی ہیں ۔ 3. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس نے بھی توہین کی، اسے بغیر توبہ کرائے آپ نے قتل کا حکم دیا۔ 4. عمر رضی اللہ عنہ نے ایسے شخص کو قتل کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی نہیں تھا ۔ 5. عبد اللہ بن ابی سرح کے قتل سے متعلق ذکر کردہ حدیث : سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب فتح مکہ کا دن تھا کہ رسول اللہ نے سب لوگوں کو امن دیا سواے چار مردوں اور دو عورتوں کے اور ان کا نام لیا،تو ابن ابی سرح حضرت عثمان بن عفان کے پاس چھپ گئے۔ جب رسول اللہ نے لوگوں کو بیعت کے لئے بلایا تو حضرت عثمان نے ابن ابی سرح کو آپ کے سامنے لا کھڑا کیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! عبد اللہ سے بیعت کریں ،آپ نے اپنا سر اُٹھاکر اس کی طرف دیکھا اور بیعت نہ کی،تین بار ایسا ہی کیا ۔تین بار کے بعد بیعت کرلی پھر اپنے صحابہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ کیا تم میں کوئی بھی عقلمند نہیں ہے جو اُٹھتا اوراس کو مار دیتاکہ جب اس نے مجھے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اس کی بیعت سے کھینچ لیا اور بیعت نہ کی۔صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !ہمیں آپ کے دل کا حال معلوم نہیں تھا،اگر آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے (تو ہم مار دیتے)۔ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ رسول کے لئے لائق نہیں کہ وہ چورآنکھوں |