Maktaba Wahhabi

32 - 138
روشنی میں کرے۔ یہ وہی بات ہوگی جو غلام احمد پرویز نے کہی کہ ’’جب قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہو تو مرکزِ ملت سے رجوع کیا جائے ۔‘‘ ایک شخص نے اسے مراسلہ بھیجا کہ حضرت! صاحب قرآن کے جن معنوں میں ہمیں ابہام نظر آتاہے، ان معانی کو کیسے سمجھیں ؟ اس پر اُس نے کہا کہ میں نے ۹ جلدوں میں قرآن کی تفسیر لکھی ہے آپ اس کو پڑھیں آپ کو سمجھ آجائے گی کہ حدیث کے بغیر قرآن کو کیسے سمجھا جاتا ہے ۔ اس شخص کا عقیدہ سلامت تھا ۔کہنے لگا: حضرت ! آپ کی لکھی ہوئی ۹ جلدیں پڑھنے کے بجائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی یہ چھ کتابیں کیوں نہ پڑھ لوں جس کے بعد مجھ پر بات واضح ہوجائے کہ قرآن کو کیسے سمجھنا ہے ۔ اللہ نے جس ذکر کو جس نبی پر نازل کیا، وہی نبی اس ذکر کی شرح کرنے کا سب سے زیادہ اہل ہوتا ہے ۔ لہذا یہ بات بالکل غلط ہے کہ اگر سنت میں کوئی سزا موجود ہے اور قرآن کے متن سے ہم براہِ راست اس کو اخذ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تو اس کا سرے سے اس بنیاد پر انکار کردیا جائے کہ وہ قرآن میں موجود نہیں ،اس لئے ہم اسے نہیں مانیں گے ! فرمانِ باری تعالیٰ ہے : لَقَدْكَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا(الاحزاب۲۱) ’’تم کو رسول اللہ کی پیروی (کرنا) بہتر ہے۔(یعنی) اس شخص کو جسے اللہ (سے ملنے) اور روز قیامت کی اُمید ہو اور وہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔ ‘‘ نیز فرمایا: مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ١ۚ وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا ’’جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جو نافرمانی کرے تو (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم )تمہیں ہم نے ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔‘‘(النساء:80) مزید فرمایا: اور فرمایا: فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ
Flag Counter