Maktaba Wahhabi

31 - 138
کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔ حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘ کا تعلق بھی ان اعمال سے ہے جو بظاہر خوشنمااور اچھے ہوتے ہیں مگر انسان کی نیت وہاں ریاکاری کی ہوتی ہے، اس لئے اللہ اسے قبول نہیں کرتے ۔اس کی وضاحت اس روایت سے ہوتی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک غازی،ایک حافظ قرآن ،اور ایک سخی آدمی کو جہنم میں ڈال دیں گے کیونکہ اُنہوں نے یہ اعمال اللہ کی رضا کےعلاوہ دکھلاوے کیلئے کئے ہوں گے۔ لیکن جب ہم پوری شریعت کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں کہیں یہ رہنمائی نہیں ملتی کہ زانی ، چور اورگالی بکنے والے سے ان کی نیتوں کے بارے میں پوچھا جائے ۔ نیت والی بات کو مغرب زدہ لوگ محض بطورِ ڈھال استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اقلیتی رہنما بشپ الیگزینڈر نے بھی ایک پروگرام میں میرے سامنے یہ اعتراض اُٹھایا کہ اس قانون میں نیت کی قید کا اضافہ ضروری ہے۔ تو میں نے ان سے کہا کہ جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے آپ کی توہین کرے اور پھر ہم اس سے اس کی نیت معلوم کریں ، ایسا تو اُمت کے عام فرد کی توہین کے متعلق نہیں کیا جاتا کہ اس کو گالی دینے والے کی نیت معلوم کی جائے یہاں سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نیت کی بحث کیوں چھیڑی جاتی ہے ؟ 2) قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟ یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ قرآن میں توہین رسالت کی سزا کہاں ہے؟ لہذا قرآن سے یہ ثابت نہیں ۔ جواب :اس اعتراض کے دو جواب ہیں : اوّل: یہ کہ قرآن ابھی نازل نہیں ہوا بلکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے اور پروردگار نے واضح فرمایا: وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ(النحل:44) یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں ، شاید کہ وہ غور وفکر کریں ۔قرآن اس لئے نازل نہیں ہوا کہ اس کی تشریح کوئی فلسفی اپنے فلسفے سے، کوئی شاعر اپنی شاعری اور کوئی خطیب اپنی خطابت کی
Flag Counter