وہ کسی ایک مذہب کی تقلید نہیں کرتے بلکہ دلیل کی روشنی میں مقصد ِشریعت کی رعایت ملحوظ خاطررکھتے ہوئے حکم لگاتے ہیں ۔ ہمیں یہ طرزِ استدلال مندرجہ ذیل تمام کتب میں نظر آتا ہے : ابن عبدالسلام کی القواعد الکبرٰی ابن رُشد کی بدایۃ المجتہد الغزالی کی غیاث الأمم ابن تیمیہ کی القواعد الفقہیہ النورانیۃ اور السیاسۃ الشرعیۃ ابن قیم کی زاد المعاد، إعلام الموقعین اورالطرق الحکمیۃ في السیاسۃ الشرعیۃ الکاسانی کی بدائع الصنائع القرافی کی الذخیرہ اور الفروق ابن دقیق العید کی شرح عمدۃ الأحکام الشاطبی کی الموافقات شریعت کے مقاصد کی پاسداری میں جہاں ابن عبدالسلام، امام ابن تیمیہ اور شاطبی رحمہم اللہ نے موضوع کو خوب نکھارا ہے، وہاں امام القرافی کی گہری بصیرت اُن موضوعات میں بھی نظر آتی ہے جو اُن کی فکر ِثاقب کانتیجہ ہیں ۔ مثلاً اُنہوں نے زمانے کی تبدیلی کی بنا پر فتویٰ میں تبدیلی کی اہمیت کو اُجاگر کیاہے اور ان جامد فقہا پر نکیر کی ہے جو کتابوں میں تحریر شدہ ’عبارت‘ سے سرمُو تجاوز کرنا پسند نہیں کرتے۔ اور اس طرح اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال میں موقع و محال کی مناسبت سے تفریق کی ہے جسے فرق نمبر ۳۶ میں واضح کیا گیاہے یعنی کون سے اقوال و افعال کا تعلق بحیثیت امیر و حاکم کے ہے اور کن کابحیثیت ِقاضی سے، اور کون سے عمومی حیثیت کے حامل ہیں جو تبلیغ دین یا فتویٰ کے ضمن میں آتے ہیں ؟ تیسرے یہ کہ اُنہوں نے جابجا مصالح و مفاسد کا اعتبار کیاہے کہ جس کی ضرورت ہر زمانے میں رہی ہے۔ یہاں اس بات کا خیال رہے کہ فقہ المقاصد کا یہ فنِ عظیم ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور اس میدان میں صرف وہی اہل علم اُتر سکتے ہیں جو شریعت کی گہری بصیرت رکھتے ہوں تاکہ |