Maktaba Wahhabi

127 - 138
اس لحاظ سے اس علم کے لیے فقہ سے اتنی گہری ممارست ہونی چاہئے کہ فقیہ اُن اسباب کی تہ تک پہنچ سکے جو حکم میں مؤثر ہوتی ہیں ،کیونکہ اس طرح ہی دو متشابہ مسائل کے درمیان فرق کا پتہ چل سکتا ہے، اس علم کی اساس دو ستونوں پرقائم ہے: 1۔ قواعد ِکلیہ اور2۔مقاصد ِشرعیہ کا جاننا: قواعد ِکلیہ سے مراد وہ اصطلاحی تعریفات ہیں جو فقہی انداز میں چند قانونی اُصولوں کو انتہائی جامعیت اور اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ اور جنہیں فقہا شریعت کے مختلف دلائل سے اَخذ کرتے رہے ہیں ۔ شیخ مصطفی الزرقا لکھتے ہیں کہ فقہا کی اصطلاح ’قواعد‘ اور قرافی کے مذکورہ ’قواعد‘ میں فرق پایا جاتا ہے۔ قرافی کے نزدیک دو متشابہ موضوعات میں بنیادی احکام کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔اس کا اندازہ اُن کے لگائے ہوئے عنوانات سے ہوجاتا ہے مثلاً اُن کے چند عنوانات ملاحظہ ہوں : 1۔ شہادت اور روایت میں فرق 2۔ قاعدہ ’انشائ‘ اور قاعدہ ’خبر‘ میں فرق 3۔ ان دو قواعد میں فرق وہ مسائل جن میں جہالت اور ناواقفیت مؤثر ہوتی ہے اور وہ مسائل جہاں وہ مؤثر نہیں ہوتی ہے۔ گویا قاعدہ سے مراد ایک خاص موضوع میں بنیادی حکم مقصود ہوتا ہے ، نہ کہ اصطلاحی معنی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کتاب میں ایسے فقہی قاعدے اور دستوری نکات بیان نہیں ہوئے کہ جنہیں قواعد و ضوابط اور اسباب و علل کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ستون مقاصد ِشرعیہ ہیں ۔ یہ وہ علم ہے کہ جس کی جڑیں صحابہ کرام کے فتاویٰ اور فیصلوں میں دیکھی جا سکتی ہیں اور جو امام شاطبی رحمہ اللہ کی ’الموافقات‘ میں پورے جوبن پر نظر آتا ہے۔ گو اُن کے راستے میں فقہی مذاہب سے قابل مذمت تعصب اور اجتہاد کے دروازوں کو بند کردینے جیسی رکاوٹیں حائل تھیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مالکی مذہب میں شریعت کے مقاصد کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ ابوبکر بن العربی (۵۴۳ھ) کہتے ہیں : ’’امام شافعی اور دوسرے ائمہ شریعت کو اس نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ جس سے امام مالک رحمہ اللہ سے
Flag Counter