Maktaba Wahhabi

114 - 138
غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ الخ ( التمہید:۱/ ۳۰ ، علمی مقالات: ۱/ ۲۷۰) ابن عبدالبر سے اس کے علاوہ تاسف والا ایک گول مول قول بھی موجود ہے۔ ( دیکھئے: التمہید: ۱۹/ ۲۸۷ ) لیکن وہ قول جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔ 26 محمد بن فضیل بن غزوان ( متوفی ۱۹۵ھ) نے کہا: مغیرہ ( بن مقسم ) تدلیس کرتے تھے، پس ہم اُن سے صرف وہی روایت لکھتے جس میں وہ حدثنا ابراہیم کہتے تھے۔ ( مسند علی بن الجعد: ۱/ ۴۳۰ ح ۶۶۳ وسندہ حسن ، دوسرا نسخہ : ۶۴۴، علمی مقالات ج۱ص ۲۸۷) معلوم ہوا کہ محمد بن فضیل بھی مدلس کی وہ روایت، جس میں سماع کی تصریح نہ ہو ضعیف و مردود سمجھتے تھے۔ 27 ابن القطان الفاسی ( متوفی ۶۲۸ھ) نے کہا:’’ومعنعن الأعمش عرضة لتبين الانقطاع فإنه مدلس‘‘اور اعمش کی معنعن (عن والی) روایت انقطاع بیان کرنے کا نشانہ اور ہدف ہے، کیونکہ وہ مدلس ہیں ۔ ( بیان الوہم والایہام :۲/ ۴۳۵ ح ۴۴۱) اگر مدلس کی عن والی روایت مطلقاً صحیح ہوتی ہے تو پھر انقطاع کے ہدف اور نشانہ ہونے کا کیا مطلب ؟! 28 زہری عن عروہ والی ایک روایت کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا: ’’ الزهری لم يسمع من عروة هذا الحديث فلعله دلّسه ‘‘ ( علل الحدیث:۱/ ۳۲۴ ح ۹۶۸) ’’زہری نے عروہ سے یہ حدیث نہیں سنی ، لہٰذا ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس میں تدلیس کی ہو۔ ‘‘ 29 اِمام یحییٰ بن سعید القطان بھی مدلس کی تصریحِ سماع نہ ہونے کو صحتِ حدیث کے منافی سمجھتے تھے، جیسا کہ اُن کے عمل سے ثابت ہے،مثلاً دیکھئے یہی مضمون (فقرہ: ۲۱ ) ابن المدینی رحمہ اللہ کے قول کا رد نمبر ۴۔ 30 ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت پر جرح کرتے ہوئے کہا: ’’اس میں تین علتیں (وجۂ ضعف) ہیں :ثوری مدلس ہیں اور انھوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔۔۔ ‘‘ ( الجوہر النقی:۸/ ۲۶۲ ، الحدیث حضرو: ۶۷ ص ۱۷)
Flag Counter