ہی باقی نہیں رہتا۔اگر ثقہ غیر مدلس راوی کی کسی خاص روایت میں یہ ثابت ہو جائے کہ انھوں نے اس روایت کو اپنے استاد سے نہیں سنا تھا تو معلول ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ فائدہ:سنن ابن ماجہ کی روایت ِمذکورہ میں امام مکحول پر تدلیس کا اعتراض غلط ہے اور عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے، لہٰذا یہ روایت حسن لذاتہ ہے اور اس کے شواہد بھی ہیں ۔ والحمد للہ! ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ دلس کالفظ غیر مصرح بالسماع روایت بیان کرنے پر بھی بولا جاسکتا ہے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام ابن معین کے مذکورہ قول کا وہی مفہوم لیا جائے جو جمہور محدثین و علما کی تحقیق کے مطابق ہے۔ 4- یعقوب بن سفیان الفارسی رحمہ اللہ کے قول:’’وحديث سفيان وأبي إسحٰق والأعمش ما لم يعلم أنه مدلس يقوم مقام الحجة‘‘ ’’اور سفیان ، ابو اسحق اور اعمش کی حدیث، جب معلوم نہ ہو کہ اس میں تدلیس کی گئی ہے تو حجت کے مقام پر قائم یعنی حجت ہے۔‘‘ کا بھی یہی مطلب ہے جو امام ابن معین رحمہ اللہ کے قول کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیسے معلوم ہو گا کہ سفیان ثوری ، ابو اسحق سبیعی اور اعمش نے فلاں حدیث میں تدلیس کی ہے یا نہیں ؟تو اس کا جواب آسان ہے کہ اگر ان کے سماع کی تصریح ثابت ہو جائے تو قطعی فیصلہ ہو گیا کہ انھوں نے تدلیس نہیں کی اور اگر تصریح ثابت نہ ہو تو پھر اس بات کا قوی خوف اور ڈر ہے کہ ہو سکتا ہے انھوں نے اس روایت میں تدلیس کی ہو ، کسی غیر ثقہ سے روایت ِ مذکورہ کو سن کر اسے گرا دیا ہو جیسا کہ سفیان ثوری نے ایک حدیث اپنے نزدیک غیر ثقہ سے سنی تھی جس نے اسے عاصم سے بیان کیا تھا، پھر اسی روایت کو ثوری نے بغیر تصریح سماع کے عاصم سے بیان کر دیا تو اُن کے شاگرد ابو عاصم نے کہا: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سفیان ثوری نے اس حدیث میں ۔۔۔۔ سے تدلیس کی ہے۔ دیکھئے: سنن الدارقطنی:۳/ ۲۰۱ ح ۳۴۲۳ اور علمی مقالات : ۱/ ۲۵۲ ،۲۵۳ |