ابن ابی نجیح سے سماع واضح ہو جائے تو حدیث صحیح ہو جائے گی۔ واللہ اعلم ‘‘ ( السنن الکبریٰ :۵/ ۲۳۰ ، کتاب الحج باب جواز الذکر والانثی في الہدایا) متعدد علماء نے مدلس کی عن والی روایت کو’’ضعیف لتدلیس۔۔۔‘‘ کہہ کر ضعیف قرار دیا ہے ، مثلاً سنن ابن ماجہ ( ۴۲۵۳) کی ایک روایت: ’’الولید بن مسلم عن ابن ثوبان عن أبیہ عن مکحول عن جبیر بن نفیر عن عبد اﷲ بن عمروعن النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کے بارے میں بوصیری نے کہا : ’’هذا إسناد ضعيف،فيه الوليد بن مسلم وهو مدلس وقد عنعنه وکذلک مکحول الدمشقي ۔۔۔ ‘‘ ( زوائد سنن ابن ماجہ ،ص ۵۵۳ح ۱۴۴۹) ’’یہ سند ضعیف ہے ، اس میں ولید بن مسلم مدلس ہیں اور انھوں نے عن سے روایت کی ہے ، اور اسی طرح مکحول الدمشقی ( مدلس ہیں اور اُنھوں نے عن سے روایت کی ہے) ۔۔۔ ‘‘ روایتِ مذکورہ میں ولید بن مسلم کا خاص طور پر تدلیس کرنا ثابت نہیں ، بلکہ اُن کے عن کی وجہ سے ہی بوصیری نے اسے تدلیس قرار دیا ہے، حالانکہ وہ اس روایت میں منفرد نہیں بلکہ ایک جماعت نے اُن کی متابعت کی ہے، جیسا کہ بوصیری کے بقیہ کلام سے بھی ظاہر ہے۔ امام مکحول کا مدلس ہونا ثابت نہیں ، کجا یہ کہ وہ کثیر التدلیس ہوں اور خاص اس روایت میں ان کا تدلیس کرنا بھی ثابت نہیں ، لہٰذا بوصیری کا اس روایت کو مکحول کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ مدلس کی عن والی روایت کو علما تدلیس قرار دیتے ہیں اور یہ شرط نہیں لگاتے کہ اگر کسی خاص روایت میں مدلس نے صراحت کے ساتھ تدلیس کی ہو گی تواسے تدلیس قرار دیں گے، ورنہ نہیں ! ثابت ہوا کہ عنعنہ کو دلسہ قرار دینا بالکل صحیح ہے۔ 3- منہاج المتقدمین کے موقف کا حاملین کا یہ کہنا : ’’ مدلس کی ’عن‘ والی ہر روایت صحیح ہوتی ہے اِلایہ کہ کسی خاص روایت میں تصریح ثابت ہو جائے کہ یہ روایت اُس نے اپنے اُستاد سے نہیں سنی تھی، تو صرف یہ روایت ضعیف ہو گی۔‘‘ حوالہ محدث، سابقہ ؟؟؟ اُصولِ حدیث کی رُو سے غلط ہے ، ورنہ مدلس اور غیر مدلس کی عن والی روایات میں فرق |