Maktaba Wahhabi

108 - 138
یہاں پر بطورِ فائدہ عرض ہے کہ امام یحییٰ بن سعید القطان نے فرمایا: ’’ما کتبت عن سفيان شيئًا إلا ما قال: حدثني أو حدثنا إلا حديثين۔۔۔‘‘ ’’میں نے سفیان( ثوری) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے جس میں وہ حدثنی یا حدثنا کہتے تھے، سوائے دو حدیثوں کے۔‘‘ ( کتاب العلل ومعرفۃ الرجال للامام احمد: ۱/ ۲۰۷ ت ۱۱۳۰، وسندہ صحیح) [ یاد رہے کہ ان دو روایتوں کو یحییٰ القطان نے بیان کر دیا تھا] معلوم ہوا کہ یحییٰ القطان اس جدید منہج المتقدمین کے قائل نہیں تھے بلکہ اپنے استاذ امام سفیان ثوری کے عنعنے اور عدمِ تصریحِ سماع کو صحت کے لئے منافی سمجھتے تھے، ورنہ اتنی تکلیف کی ضرورت کیا تھی؟ 6 ابن مدینی کے اس قول کو نہ اہلِ حدیث نے قبول کیا ہے (مثلاً شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے ابوالزبیر ، قتادہ، اعمش، ابراہیم نخعی اور محمد بن عجلان وغیرہم کی روایات پر تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے ) اور نہ حنفیہ ، شافعیہ ، دیوبندیہ ، بریلویہ اور دیگر لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں ، مثلاً سرفراز خان صفدر دیوبندی اور احمد رضا خان بریلوی وغیرہم نے کئی مدلس یا تدلیس کی طرف منسوب راویوں کی روایات پر تدلیس کی جرح کی ہے، جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔نیز دیکھئے میری کتاب : ’علمی مقالات‘:۳/ ۲۲۱، ۶۱۲ عام کتبِ اُصولِ حدیث میں بھی اس قول کو بطورِ حجت نقل نہیں کیا گیا بلکہ اس سے اِغماض اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول غلط اور مرجوح ہے۔ 7 کون کثیر التدلیس تھا اور کون قلیل التدلیس تھا، اس مسئلے کو متقدمین سے ثابت کرنا اور عام مسلمانوں کو اس پر متفق کرنے کی کوشش کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ 8 اختلافی مسائل کی کتابوں اور مناظراتِ علمیہ میں یہ اُصول غیر مقبول ہے بلکہ اس کے برعکس ثابت ہے۔ 2۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے مدلس راوی کے بارے میں فرمایا:’’لا يکون حجة فيمـا دلّس‘‘ ’’وہ جس میں تدلیس کرے تو حجت نہیں ہوتا۔ ‘‘ ( الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح) اس قول کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جو روایت عن سے بیان کرے تو حجت نہیں ہوتا۔
Flag Counter