عرض ہے کہ یہ قول آٹھ(۸) وجوہ سے مرجوح اور ناقابلِ حجت ہے: 1 یہ جمہور کے خلاف یعنی شاذ ہے جیسا کہ ہم نے بیس سے زیادہ علماے کرام کے حوالوں سے ثابت کر دیا ہے اور باقی حوالے آگے آ رہے ہیں ۔ اِن شاء اللہ یاد رہے کہ اس قول یعنی الغالب علیہ التدلیس کو جمہور کا موقف قرار دینا غلط ہے۔ 2 اس قول کے راوی خطیب بغدادی نے روایت کے باوجود خود اس قول کی عملاً مخالفت کی۔ دیکھئے یہی مضمون، فقرہ نمبر ۶ 3 محدثین متقدمین مثلاً تیسری صدی ہجری تک تدلیس کرنے والے عام راویوں کے بارے میں محدثین کرام سے قلیل التدلیساورکثیر التدلیس کی صراحتیں ثابت نہیں ہیں ۔ 4 یہ مفہومِ مخالف ہے اور نصِ صریح کے مقابلے میں مفہومِ مخالف حجت نہیں ہوتا۔ 5 یہ قول منسوخ ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خود امام ابن مدینی نے سفیان ثوری کے بارے میں فرمایا: ’’والناس يحتاجون في حديث سفيان إلی يحيٰی القطان لحال الإخبار يعنی عليّ أن سفيان کان يدلس وأن يحيٰی القطان کان يوقفه علٰی ما سمع مما لم يسمع ‘‘ ( الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح) ’’لوگ سفیان کی حدیث میں یحییٰ القطان کے محتاج ہیں ، کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایات بیان کرتے تھے۔ علی بن المدینی کا خیال ہے کہ سفیان تدلیس کرتے تھے اور یحییٰ القطان ان کی صرف مصرح بالسماع روایتیں ہی بیان کرتے تھے۔‘‘ یاد رہے کہ منہج المتقدمین والے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کو کثیر التدلیس نہیں سمجھتے بلکہ بہت سے علما اُنھیں قلیل التدلیس سمجھتے ہیں ، لہٰذا اگر سفیان ثوری کی عن والی اور غیر مصرح بالسماع روایتیں (جن میں صراحتاً تدلیس ثابت نہیں ہے) صحیح و مقبول ہوتیں تو پھر لوگ ان کی روایات میں امام یحییٰ بن سعید القطان کے محتاج کیوں تھے؟ جب قلیل التدلیس راوی کی معنعن روایت میں سماع کی تصریح ضروری نہیں تو پھریہاں لوگوں کا محتاج ہو کر یحییٰ القطان کی طرف رجوع کرنا ناقابلِ فہم ہے۔ |