Maktaba Wahhabi

106 - 138
20 شیخ الاسلام سراج الدین عمر بن رسلان البلقینی( متوفی ۸۰۵ ھ) نے مقدمہ ابن الصلاح کی شرح میں امام شافعی کا قول نقل کیا اور کوئی تردید نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی موافقت ہے۔ دیکھئے: محاسن الاصطلاح :ص ۲۳۵، تحقیق عائشہ عبدالرحمن بنت شاتی 21 برہان الدین ابو اسحق ابراہیم بن موسیٰ بن ایوب الابناسی ( متوفی ۸۰۲ھ) نے بھی امام شافعی کے مذکورہ اُصول کو نقل کیا اور کوئی مخالفت نہیں کی، لہٰذا یہ ان کی طرف سے اصولِ مذکور کی تائید ہے۔ دیکھئے: الشذي الفیاح:۱/ ۱۷۷ ان کے علاوہ اور بھی کئی حوالے ہیں ،مثلاً دیکھئے:النکت علیٰ ابن الصلاح لابن حجر:۲/۶۳۴ وغیرہ ………٭ ……٭ ……… 1۔اُصولِ حدیث کے اس بنیادی مسئلے کے خلاف عرب ممالک میں حاتم شریف العونی ، ناصر بن حمد الفہد اور عبداللہ بن عبدالرحمن سعد وغیرہم نے منہج المتقدمین (والمتاخرین) کے نام سے ایک نیا اُصول متعارف کرانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مدلسین کی دو قسمیں ہیں : 1 کثیر التدلیس مثلاً بقیہ بن الولید ، حجاج بن ارطاۃ اور ابو جناب کلبی وغیرہم 2 قلیل التدلیس مثلاً قتادہ، اعمش ، ہشیم ، ثوری ، ابن جریج اور ولید بن مسلم وغیرہم، دیکھئے: منہج المتقدمین فی التدلیسل ناصر بن حمد الفہد، ص ۱۵۵، ۱۵۶ ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ قلیل التدلیس راوی کی صرف وہی روایت ضعیف ہوتی ہے جس میں اُس کا تدلیس کرنا ثابت ہو ، ورنہ صحیح اور مقبول ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے منہج کی تائید میں درج ذیل دلیل پیش کرتے ہیں : ’’یعقوب بن شیبہ نے کہا: میں نے علی بن مدینی سے پوچھا: جو شخص تدلیس کرتا ہے، کیا وہ حدثنا نہ کہے توحجت ہوتا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: ’’إذا کان الغالب عليه التدليس فلا حتی يقول: حدثنا‘‘ اگر اس پر تدلیس غالب ہو تو جب تک حدثنا نہ کہے حجت نہیں ہوتا۔‘‘ (الکفایہ ص ۳۶۲ وسندہ صحیح، منہج المتقدمین ص ۲۳ مقدمہ بقلم شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن سعد ) گذشتہ محدث میں اس قول کا حوالہ بھی درج کریں ۔؟؟؟
Flag Counter