جائے تو اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی،اِلا یہ کہ وہ حدثنی یا سمعتکہے / یعنی سماع کی تصریح کرے۔ ( النکت علیٰ مقدمۃ ابن الصلاح از امام زرکشی ص ۱۸۴) تنبیہ: چونکہ کتاب الدلائل والاعلام میرے پاس موجود نہیں اور نہ مجھے اس کے وجود کا کوئی علم ہے، لہٰذا یہ حوالہ مجبوراً زرکشی سے لیا ہے اور دوسرے کئی علماء نے بھی صیرفی سے اس حوالے کو نقل کیا ہے (مثلاً دیکھئے شرح الفیۃ العراقی بالتبصرۃ والتذکرۃ:۱/ ۱۸۳۔ ۱۸۴)نیز یہ کہ کتاب سے روایت جائز ہے اِلا یہ کہ اصل کتاب میں ہی طعن ثابت ہو تو پھر جائز نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضعیف راوی سے ایک دفعہ بھی تدلیس کرنے والے ثقہ راوی کے بارے میں صیرفی کا یہ موقف تھا کہ اس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں سماع کی تصریح ہو، لہٰذا امام شافعی کے اصول سے صیرفی بھی متفق تھے۔ 18 حافظ ابن حجر عسقلانی نے تدلیس الاسناد کے بارے میں کہا : ’’وحکم من ثبت عنه التدليس إذا کان عدلاً،أن لا يقبل منه إلا ما صرّح فيه بالتحديث علی الأصح ‘‘ ( نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر ،ص ۶۶ ، و مع شرح الملا علی القاری، ص ۴۱۹) ’’صحیح ترین بات یہ ہے کہ جس راوی سے تدلیس ثابت ہو جائے، اگرچہ وہ عادل ہو تو اُس کی صرف وہی روایت مقبول ہوتی ہے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایک دفعہ تدلیس ثابت ہو جانے پر بھی حافظ ابن حجر مدلس کا عنعنہ صحت کے منافی سمجھتے تھے۔ حافظ ابن حجر نے اپنے نزدیک طبقۂ ثانیہ کے ایک مدلس اعمش کے بارے میں کہا: ’’کیونکہ کسی سند کے راویوں کا ثقہ ہونا صحیح ہونے کو لازم نہیں ہے ، چونکہ اعمش مدلس ہیں اور اُنھوں نے عطا سے ( اس حدیث میں ) اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ‘‘ ( التلخیص الحبیر:۳/ ۱۹ح ۱۱۸۱، السلسلۃ الصحیحۃ:۱/ ۱۶۵ ح ۱۰۴) 19 محمد بن اسماعیل یمانی (متوفی۱۱۸۲ھ) نے بھی حافظ ابن حجر کے مذکورہ قول (فقرہ: ۱۸) کو بطورِ جزم اور بغیر کسی تردید کے نقل کیا ہے۔ دیکھئے: إسبال المطر علیٰ قصب السکر بتحقیقالشیخ محمد رفیق الاثری ص ۱۱۶،۱۱۷ |